یکم نومبر: گلگت بلتستان کی صبح آزادی

گریٹ گیم سے یکم نومبر 1947 تک ایک تاریخی جدوجہد کی داستان۔

گلگت سکاؤٹس کے اہلکار 1947 میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف بغاوت کے بعد پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں (وکی پیڈیا کامنز)

انگریز پولیٹیکل ایجنٹ راجر بیکن نے تیزی سے کاغذ پر دستخط کیے اور فائل بریگیڈیر گھنسارا سنگھ کی طرف بڑھا دی۔

یہ 1947 کے جولائی کا واقعہ ہے اور جگہ گلگت ایجنسی کا دفتر تھا۔ تاج برطانیہ کا سورج غروب ہو رہا تھا اور انگریز برصغیر سے نکل رہے تھے۔ 

ان کی مغربی ہمالیائی خطے میں آخری پناہ گاہ گلگت ایجنسی سے بھی بے دخلی ہو رہی تھی اور یونین جیک کے اترتے ہی یکم جولائی، 1947 کو موجودہ گلگت بلتستان مہاراجہ کشمیر کے نمائندے گھنسارا سنگھ کے حوالے کر دیا گیا۔ 

بریگیڈیر صاحب چند دن پہلے سری نگر سے گلگت پہنچے تھے۔ وہ مہاراجہ کی طرف سے بطور گورنر یہاں کے لیے تعینات ہوئے تھے۔

لیکن اقتدار کی کشمکش اس سے کہیں پہلے سے تھی، جسے بعد ازاں گریٹ گیم کے نام سے شہرت ملی۔ 

انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے 1608 سے برصغیر میں تجارت کا آغاز کیا اور پھر تجارت حکومت میں بدل گئی۔ 

آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو محصور کرکے رنگون بدر کیا گیا اور انہیں کوئے یار میں دو گز زمین بھی نہیں ملی۔ 

انگریزوں نے مزاحمت کرنے والے راجوں، مہاراجوں کو تقسیم کر کے زیردست کیا اور جس کسی نے سر اٹھایا اسے خاموش کر دیا گیا۔ 

یوں تاج برطانیہ کا پھریرا 1947 تک برصغیر کی فضا میں ایک شان استغنا سے پھڑپھڑاتا رہا۔ ادھر تاج برطانیہ کی سرحدیں بنگال سے مغربی ہمالیہ تک پھیل گئیں، یہاں تک کہ چین اور زار روس سے ماتھا جا ٹکرایا۔

مہاراجہ کشمیر کو دباؤ میں ڈال کر پہلے پہل تو کشمیر میں انگریز ریزیڈنٹ مقرر کیا گیا اور پھر 1989 میں گلگت ایجنسی قائم کرنے کا ڈول ڈالا گیا۔ 

مہاراجہ گلاب سنگھ نے 1840 میں بلتستان و استور اور بعد ازاں 1860 میں گلگت کو ایک زبردستی قبضے کے تحت اپنی عمل داری میں شامل کر لیا۔ 
 
1846 میں معاہدہ امرتسر کے نام پر انگریزوں نے کشمیر اور کچھ ملحقہ علاقوں کو اینگلو سکھ جنگ میں وفاداری نبھانے کے عوض گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا، جس میں زمین سے لے کر انسانوں تک سب کچھ فروخت میں شامل تھے۔

’قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند‘

یوں قبضہ اور نام نہاد معاہدے کی آڑ میں ڈوگرہ حکمران سو سال تک گلگت بلتستان میں بلاشرکت غیرے قابض رہے۔ 

تاہم 1889 میں گلگت ایجنسی قائم کرکے انگریزوں نے مہاراجہ کی کہنی موڑ لی اور زار روس کے ساتھ سرحدی کشمکش بھی شروع ہوئی جسے تاریخی ادب میں گریٹ گیم کا نام دیا گیا۔ 

گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیّت بہت زیادہ تھی اور اس کی سرحدیں چین اور روس کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ 

اس خطے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ جارج کرزن نے بھی گلگت بلتستان کی سرحدوں تک سفر کیا اور اس خطے کی اہمیت کے حوالے سے یاداشتیں تحریر کیں جو بعد میں ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوئیں۔ 

بعد ازاں وہ لارڈ جارج کرزن کہلائے اور 1889سے 1905 تک انڈیا کے وائسرائے رہے۔

پڑوسی چین تو اس وقت خواب غفلت میں پڑا ہوا تھا اور افیون زدہ کے نام سے مشہور تھا، لیکن قدرے دور زار روس پامیر سے آگے بڑھ کر مغربی ہمالیہ اور قراقرم کی وادیوں پر حق سبقت ڈالنے کی جستجو میں تھا۔ 

برٹش انڈیا کو اس خطرے کا شدت سے احساس تھا، لہٰذا گلگت بلتستان کو ایک بفر زون بنانے کے لیے پہلے مہاراجہ گلاب سنگھ کو شہ دے کر قبضہ کرایا گیا، جو تاج برطانیہ کی فاروڈ پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ 

بعد ازاں گلگت ایجنسی قائم کرکے سرحدوں کی نگرانی کی ذمہ داریاں بھی اپنے کندھوں پر لے لی۔

اس ضمن میں 1935 میں مہاراجہ کشمیر کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا اور 60 سال کی مدت کے لیے گلگت ایجنسی اور چند ملحقہ علاقے لیز پر لیے گئے۔ 

اس دوران برصغیر میں آزادی کا غلغلہ بلند ہوا۔ دیگر نوآبادیاتی خطوں کی طرح برصغیر کے عوام نے بھی غلامی اور محکومی کا جوا سر سے اتار پھینکنے کا ارادہ کیا اور سیاسی تحریک شروع ہوئی۔ 

برطانوی پارلیمنٹ نے انڈیا کے لیے آزادی ایکٹ 1947 منظور کیا۔ نقشوں پر لکیریں کھینچ کر سرحدیں بنائی گئیں۔

نیز 600 کے قریب ریاستوں کے ساتھ برٹش انڈیا نے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کی اور انہیں کسی بھی مملکت کے ساتھ شامل ہونے کا ذاتی اختیار دے دیا۔

کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ اپنی الگ حیثیت برقرار رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے انڈیا اور پاکستان سے stand still معاہدوں کی بھی کوشش کی۔

بعد ازاں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی تازہ تصنیف ’آئینہ کشمیر‘  اس وقت کی صورتحال اور ہماری سیاسی کوتاہ نظری کو سمجھنے کے لیے گراں قدر مواد کی حامل ہے۔ 

ادھر گلگت بلتستان میں مہاراجہ کے اقدام سے عوامی سطح پر سخت بے چینی پیدا ہوئی لیکن کوئی ایسی متفقہ قیادت موجود نہیں تھی جو آگے بڑھ کر آزادی کا علم بلند کرے۔ 

زیادہ تر مقامی راجاؤں نے ابھی بھی کشمیری دربار سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور وہ گومگو کی حالت میں تھے۔

ایسے میں جنگ آزادی کے لیے اس وقت کی دو فورسز کے افسران کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا۔ ایک گلگت سکاؤٹس اور دوسری 6AJK انفنٹری کے مسلمان افسر اور خاص طور وہ جن کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ 

گلگت سکاؤٹس کا قیام شروع میں پونیال لیوی کے نام سے 1913 میں ہوا، جسے بعد ازاں نفری بڑھا کر گلگت سکاؤٹس کا نام دیا گیا۔ 

اس پیراملٹری فورس کا بنیادی مقصد ایک تو گلگت ایجنسی کے لیے سیکورٹی کی خدمات سر انجام دینا تھا اور دوسری طرف دروں اور سرحدوں پر بھی نظر رکھنا تھا تاکہ زار روس کی کسی بھی قسم کی پیش قدمی کو روکا جاسکے۔ 

اس پیرا ملٹری فورس کے نمایاں افسروں میں میجر بابر خان اور کپٹن شاہ خان تھے اور اس میں ہنزہ، نگر اور پونیال کی لیوی کے جوان شامل تھے۔

دوسری طرف 6AJK کشمیر سٹیٹ فورس کا حصہ تھی اور اس کی چار کمپنیوں کی تعنیاتی بونجی گیریژن استور میں ہوئی تھی۔ 

بونجی گلگت ایجنسی سے 36 میل جنوب دریائے سندھ کے بائیں طرف واقع ہے اور یہ ایجنسی میں شامل نہیں تھی بلکہ اس طرف مہاراجہ کی آخری سرحدی چھاؤنی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں 1947 کے دوران 6AJK سٹیٹ فورس کی دو مسلمان جبکہ ایک ڈوگرہ اور ایک سکھ کمپنی تعینات تھی۔ 

غرض اسی 6AJK کے آفسران اور خاص طور پر کرنل حسن خان جرال، کرنل احسان علی کی جرات، بہادری اور قیادت کا اعجاز تھا کہ گلگت سکاؤٹس اور 6AJK فورس کے مسلم  آفسران کی مشترکہ حکمت عملی سے گلگت بلتستان کو صبح آزادی نصیب ہوئی۔ 

اس مشترکہ حکمت عملی کے تحت تین کالم بنائے گئے۔ ٹائیگر فورس اور سکیمو فورس نے کرنل حسن خان اور کپٹن شاہ خان کی قیادت میں استور چلم داسخرم سے بانڈی پورہ اور دیوسائی کے راستے گلتری دراس سے زوجیلہ پاس کی طرف پیش قدمی کی۔ 

آئی بیکس فورس نے کرنل احسان علی اور میجر بابر کی قیادت میں دریائے سندھ کے راستے بلتستان و کارگل کا رخ کیا۔ 

وسط جولائی 1948 تک یہ تینوں فورسز مقامی مجاہدین اور سرحدی عوام کی دامے درمے سخنے تعاون سے بانڈی پورہ (سری نگر سے 40 میل شمال میں)، زوجیلہ پاس (سری نگر سے61 میل مشرقی سمت) اور نیمو (لداخ سے چند کلومیٹر مغربی سمت) پہنچ گئی تھیں۔ 

یہاں تک کہ ایک ٹکڑی زانسکر کے قریب پدم تک پہنچ گئی  جس کی ہمت و بہادری کی ایک الگ داستان ہے۔

اس دوران کمانڈر بدلے گئے، انتظامی امور میں تبدیلی آئی، مرکز سے کوئی ٹھوس تعاون نہ ملا۔

یوں بہت سا قابض رقبہ واپس چلا گیا اور پھر موجودہ گلگت بلتستان کی سرحد متعین ہوئی حتیٰ کہ بعد میں کچھ مزید علاقے 1971 کی جنگ میں بھی چھن گئے۔ 

یکم نومبر، 1947 کو برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے گلگت بلتستان کی آزادی کی جو جنگ شروع کی گئی تھی 14 اگست، 1948 کو فتح بلتستان سے اس کی تکمیل ہوئی۔ 

تاہم 1947 سے لے کر اب تک اس خطے کی آئینی شناخت کا مسلئہ جوں کا توں پڑا ہوا ہے جبکہ تین سے زائد نسلیں آنکھوں میں خواب سجائے پیوند خاک ہو چکی ہیں۔ 

فیض احمد فیض نے ہمارے جذبات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے ! 

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ