سیٹلائٹس کو ٹکراؤ سے بچانے کے لیے چین اور امریکہ کا ’غیر معمولی‘ خلائی تعاون

چینی اور امریکی خلائی اداروں نے اپنے سیٹلائٹس کی سمت تبدیل کی تاکہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے سے محفوظ رہیں، جو خلائی ٹریفک کے انتظام میں غیر معمولی تعاون کی مثال ہے۔

زمین کے گرد مدار میں موجود خلائی ملبے کی تصویر (ناسا گاڈارڈ سپیس فلائٹ/جے ایس سی)

چین اور امریکہ کے خلائی اداروں نے حال ہی میں ایک دوسرے کے سیٹلائٹس کو ٹکراؤ سے بچانے کے لیے ان کی پوزیشن کے حوالے سے تعاون کیا، جو خلائی ٹریفک کے انتظام کے لیے غیر معمولی مثال ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے ڈائریکٹر ایل ون ڈریو نے سڈنی میں منعقدہ انٹرنیشنل ایسٹروناٹیکل کانگریس میں کہا: ’ہم نے اس موقعے پر تھوڑی خوشی منائی کیونکہ پہلی بار چینی نیشنل سپیس ایجنسی نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے سیٹلائٹس ایک دوسرے کے قریب سے گزرنے والے ہیں۔ ہم تجویز کرتے ہیں کہ آپ اپنی پوزیشن پر قائم رہیں۔ ہم اپنے سیٹلائٹس کو حرکت کے ذریعے اس خطرے سے بچائیں گے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایسا تعاون سامنے آیا۔‘

چین اور امریکہ زمین کے گرد مدار میں بڑی تعداد میں سیٹلائٹس بھیج رہے ہیں، جنہیں میگا کانسٹلیشن کہا جاتا ہے لیکن اس سے تصادم کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق زمین کے نچلے مدار میں تقریباً دو لاکھ فلکی اجسام موجود ہیں، جن کا سائز ایک سینٹی میٹر سے 10 سینٹی میٹر کے درمیان ہے جب کہ لاکھوں ٹکڑے 10 سینٹی میٹر سے بڑے ہیں، جو سیٹلائٹس کے لیے مخصوص اس مدار میں ازدحام پیدا کر رہے ہیں۔

زمین کے نچلے مدار میں موجود 12,955 فعال سیٹلائٹس میں سے تقریباً 8,500 یعنی 66 فیصد سے زائد ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کی سٹار لنک کانسٹلیشن کے حصہ ہیں۔

سپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک نے کہا کہ وہ سٹار لنک کانسٹلیشن کو آخرکار 42,000 سیٹلائٹس تک بڑھانے کے خواہاں ہیں جبکہ کمپنی کو اس وقت 12,000 سیٹلائٹس ہی لانچ کرنے کی اجازت حاصل ہے۔

چین نے بھی حال ہی میں اپنے منصوبے کا اعلان کیا کہ وہ 2030 کی دہائی تک 10 ہزار سے زائد سیٹلائٹس زمین کے گرد مدار میں رکھے گا۔

خلائی ٹریفک بڑھنے اور اسے منظم کرنے کی فوری ضرورت کے باوجود، چینی اور امریکی خلائی ایجنسیوں کے درمیان تعاون انتہائی کم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2011 کا وولف ترمیم نامی قانون ناسا کو وفاقی فنڈز استعمال کرتے ہوئے چین یا کسی چینی کمپنی کے ساتھ باہمی تعاون کرنے سے روکتا ہے جب تک کہ امریکی کانگریس خاص طور پر اس کی اجازت نہ دے۔

اس دوران مختلف سرکاری خلائی مشنز کے ایک دوسرے سے ٹکرانے اور پرانی لانچز سے باقی بچ جانے والے خلائی ملبے کے خطرات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں، جو یہاں تک کہ خلا بازوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔

رواں ہفتے تین خلا باز چین کے تیانگونگ سپیس سٹیشن پر اس وقت پھنس گئے تھے، جب ان کے واپسی کے کیپسول سے مشتبہ خلائی ملبہ ٹکرا گیا تھا۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ فلکیات کو کم مدار میں موجود سیٹلائٹس سے بڑھتا ہوا خطرہ لاحق ہے۔

قانونی ماہر ڈیوڈ کاپلو نے اس بارے میں کہا: ’جب سیٹلائٹس رصدگاہوں کے اوپر سے گزرتے ہیں، تو وہ دور دراز کی چیزوں اور مظاہر کو دیکھنے میں رکاوٹیں بناتے ہیں جو جمع شدہ تصاویر پر سفید دھبوں کا باعث بنتی ہیں اور دور کے ذرائع سے حاصل ہونے والے اہم روشنی اور ریڈیو ویوز کے ڈیٹا تک رسائی کو محدود کر دیتی ہیں۔‘

انہوں نے وینڈر بلٹ جرنل آف ٹرانس نیشنل لا میں لکھا کہ جیسے جیسے زمین کے مدار میں نئے ہزاروں سیٹلائٹس اور متعلقہ مشن کا ملبہ بھیجا جا رہا ہے، تصادم اور خلل کے خطرات اسی تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی