برطانیہ: سکولوں میں فون پر پابندی کے لیے نوجوان لڑکی بھی قانونی کارروائی میں شریک

17 سالہ لڑکی کے بقول انہیں لگتا ہے کہ محکمہ تعلیم انہیں اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

شمال مغربی برطانیہ میں پارک لین اکیڈمی، ہیلی فیکس کے طلبہ 17 مارچ 2021 کو کلاس روم میں داخل ہونے کے منتظر ہیں(اولی سکارف / اے ایف پی)

دو والد جو حکومت کی سکولوں میں فون کے استعمال سے متعلق ہدایت نامے کو قانونی طور پر چیلنج کرنا چاہتے ہیں، انہیں ایک بڑی حمایت حاصل ہو گئی ہے، کیوں کہ ایک نوجوان لڑکی اور تین بچوں کی ماں بھی اس مجوزہ عمل میں شامل ہو گئی ہیں۔

17 سالہ فلاسی میک شیہ اور 43 سالہ کیٹی مور ول اور-ایونگ اور پیٹ مونٹگمری کے عدالتی جائزے کے دعوے میں شامل ہو گئی ہیں، جس کا مقصد سکولوں میں سمارٹ فونز پر مکمل پابندی عائد کرانا ہے۔

 میک شیہ، جو بطور مدعی کارروائی میں شامل ہوئی ہیں، کہتی ہیں کہ محکمہ تعلیم( ڈی ایف ای) انہیں اور دوسرے بچوں کو سکول کے اوقات میں فون کے ذریعے ہونے والے نقصانات سے بچانے میں ناکام رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سمارٹ فون کے استعمال نے ’سات سال سے میری زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔‘

 میک شیہ کہتی ہیں: ’ میرے سامنے فحش ویڈیوز اور پرتشدد مناظر، مثال کے طور پر سر قلم کرنے کی ویڈیوز آتی تھیں۔ ایک بار مجھے ایک دو بچوں کی ایک ویڈیو بھیجی گئی جنہیں ایک بندوق ملی، اور ایک نے غلطی سے دوسرے بچے کو گولی مار دی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے گھر جانا پڑا۔ ایسی واقعات کئی بار ہوئے، اور میرے بہت سے دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔‘

’یہ سب سکول میں ہی ہوتا تھا کیوں کہ وہاں سب کے سامنے فوری ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب 30 بچوں کے سامنے کوئی چیز شیئر کی جاتی ہے تو وہ زیادہ پرکشش محسوس ہوتی ہے۔ اگر میرے پاس فون نہ ہوتا، اور سکولوں میں فون نہ ہوتے، تو میں ان چیزوں سے کبھی واقف نہ ہوتی جنہیں میں دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔‘

میک شیہ کے سکول نے اب سکول کی حدود میں سمارٹ فونز پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔

انہوں نے کہا: اس سے اگلے دن سکول بس میں چڑھی تو ساتویں جماعت کے کچھ بچے ہنس رہے تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
ہم نے تو یہ سب کبھی محسوس ہی نہیں کیا، کیوں کہ ہم ہمیشہ سر جھکائے فون پر سکرول کرتے رہتے تھے۔‘

نارتھیمپٹن کی رہائشی کیٹی مور بھی اس دعوے میں شامل ہو گئی ہیں، جب ان کی 18 سالہ بیٹی نے بتایا کہ سکول کے چینجنگ روم میں طلبہ کو فون پر فحش تصاویر دکھائی جاتی تھیں۔

 انہوں نے  کہا کہ آن لائن ان کی بیٹی کو جن چیزوں کا سامنا کرنا پڑا، ان سے انہیں انتہائی صدمہ پہنچا۔

کیٹی مور نے کہا: ’بطور والدین، ایک ایسے دور میں ایک نو عمر بچے کی پرورش کرنا بے حد تھکا دینے والا ہے، جہاں دنیا ہمیں مسلسل ٹیکنالوجی کی طرف دھکیل رہی ہے اور انہی پر انحصار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کو سمارٹ فون دینے میں ہر ممکن حد تک تاخیر کرتی رہیں، مگر جب باقی تمام بچوں کے پاس فون تھے تو انہیں دباؤ میں آ کر دینا پڑا۔

کیٹی مور کا ماننا ہے کہ سکولوں میں فون پر مکمل قانونی پابندی ہی واحد حل ہے، اور یہ کہ فون نظر سے اوجھل رکھنے جیسی پالیسیاں کافی نہیں ہیں۔

 اور-ایونگ اور مونٹگمری، جو دونوں سکول جانے والے بچوں کے والد ہیں، نے جولائی میں تعلیم کی سیکرٹری بریجٹ فلیپسن کو خط لکھا کہ وہ سکولوں کے تحفظاتی رہنما اصولوں میں لازمی فون پابندی شامل نہ ہونے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وہ اس عدالتی کارروائی کو اپنی قائم کردہ تنظیم جنریشن الفا سی آئی سی کے تحت آگے بڑھا رہے ہیں۔
وکلا پیر کو ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائیں گے۔

سابق کنزرویٹو حکومت کے تحت، سکولوں کو فون کا استعمال روکنے کے لیے رہنما اصول جاری کیے گئے تھے جن پر پابندی لازم نہیں تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 چلڈرن کمشنر کے اس سال کے ایک سروے کے مطابق،90 فیصد سیکنڈری سکولوں اور 99.8 فیصد پرائمری سکولوں نے پہلے ہی سکول کے دوران فون کے استعمال کو روکنے کے لیے پالیسیاں بنا رکھی ہیں۔

اکثر سیکنڈری سکول (79 فیصد) طلبہ کو فون لانے کی اجازت دیتے ہیں، مگر شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ نظر نہ آئیں اور استعمال نہ کیے جائیں۔ صرف 3.5 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں فون لانے کی مکمل ممانعت ہے۔

جولائی میں مونٹگمری اور اور-ایونگ نے سکولوں سے آزادیِ معلومات کی درخواستوں کے ذریعے فون اور سوشل میڈیا سے متعلق حفاظتی واقعات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

 ایک سکول کے مطابق، اس نے 55 واقعات سماجی خدمات  کو بھیجے، جن میں سے 17 کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔

 مونٹگمری نے کہا کہ سکولوں سے سمارٹ فون ختم کرنا ’ایک بالکل واضح فیصلہ‘ ہے۔

 انہوں نے مزید کہا: ’یہ حکومت کے لیے دنیا کا سب سے آسان فیصلہ ہونا چاہیے، لیکن چونکہ انہوں نے یہ قدم نہیں اٹھایا، اس لیے ہمارے پاس عدالت جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘

حکومتی ترجمان نے کہا: ’ہمارے سکولوں میں فون کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور سربراہ اساتذہ کے پاس ان پر پابندی لگانے کے مکمل اختیارات موجود ہیں۔ ہم ہیڈ ٹیچرز کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ تعلیمی نظم برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں، واضح رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اور آن لائن سیفٹی ایکٹ کے ذریعے بچوں کو نقصان دہ مواد سے بہتر تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔‘

 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ