جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کیڈٹ کالج میں عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تو پاکستانی فوج نے 30 گھنٹوں میں آپریشن مکمل کر کے 525 کیڈیٹس کو ریسکیو کر لیا۔ ریسکیو میں حصہ لینے کرنل شاہد نے کہا کہ ’ہم اے پی ایس بھولے نہیں ہیں اور طے کیا تھا کہ مزید اے پی ایس جیسا سانحہ ہونے نہیں دیں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے وانا کیڈٹ کالج کا دورہ کیا جہاں دو روز قبل عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔ جائے وقوعہ پہ پہنچے تو دیکھا کہ کالج کے مرکزی گیٹ کے سامنے چار فٹ کا گڑھا پڑا ہوا تھا جسے وقتی طور مٹی سے بھرا گیا تھا تاکہ گاڑیاں گزر سکیں۔ گڑھے کو دیکھ کر اندازا ہو رہا تھا کہ بارودی مواد اور دھماکے کی شدت کیا ہوئی ہو گی کیونکہ مرکزی گیٹ کے پرخچے اڑ چکے تھے جو دور دور تک بکھرے ہوئے تھے۔ گیٹ کے دونوں اطراف جو مانیٹرنگ کمرے تھے ان کی دیواریں بھی گر چکی تھیں۔ وہاں موجود فوجی افسران نے بتایا کہ کم از کم 600 کلوگرام کا بارودی مواد گاڑی میں تھا۔
گیٹ سے ذرا آگے بائیں جانب آڈیٹوریم تھا۔ وہ آڈیٹوریم جس کا نام بھی اس فوجی کے نام پہ رکھا گیا جس نے اسی کیڈٹ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن 2022 میں آنٹیلجنس بیسڈ آپریشن کے دوران جان سے چلے گئے۔ ان کے والد اسی کالج میں مالی تھے۔ دھماکے سے اس آڈیٹوریم کو بھی نقصان پہنچا۔
گیٹ سے دو سو میٹر کے فاصلے کے فاصلے پر انتظامی عمارت تھی ایک خودکش حملہ آور نے گیٹ پر دھماکہ کیا اور گیٹ ٹوٹنے کے بعد چار حملہ آور اس انتظامی عمارت میں چلے گئے۔ انتظامی عمارت کے اوپر بھی واچ ٹاورز بنے ہیں جہاں فوجی اسلحے کے ساتھ معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔ معلومات کے مطابق انہوں نے ابتدائی طور پر عسکریت پسندوں پر فائرنگ کی اور اسی دوران دھماکے کی آواز سن کر کوئیک ریسپانس فورس بھی پہنچ گئی۔ جس کے بعد حملہ آوروں کو انتظامی عمارت میں ہی محصور کیا گیا۔
انتظامی عمارت کا جب دورہ کیا تو دیکھا وہاں پر جابجا خون کے چھنٹے اور دیواروں پر گولیوں کے نشان تھے۔ سیڑھیوں پر تین سویلین اہلکاروں کا خون تھا جنہیں عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا۔ عمارت کی چھت پر ایک بوٹ کا جوڑا، چپل
اور ایک عدد گرم ٹوپی پڑی ہوئی تھی۔ پرنسپل کے کمرے سے لے کر لائبریری تک ہر طرف تباہی کے مناظر تھے۔ کتابیں نیچے گری ہوئیں اپنے ساتھ ہونے والی بے قدری کی داستان سنا رہیں تھیں۔ جبکہ ٹوٹے شیشے بھی نوحہ کناں تھے۔ غرض عمارت کا ہر ٹوٹا دروازہ کھڑکی تیس گھنٹوں میں گزرنے والی تباہی بیان کر رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باہر لان کے ایک کونے میں خودکش حملہ آور کا پاؤں بھی ملا۔ انسانی اعضا کو ایسے دیکھنا یقینی طور پر خوش گوار عمل نہیں تھا لیکن سکیورٹی معاملات کی صحافت میں ایسے موقعے آتے ہیں جب حساس رپورٹنگ بھی کرنی پڑتی ہے۔ سکول پرنسپل کے مطابق حملے کے وقت کلاسز ختم ہو چکی تھیں اس وقت طلبہ ڈرل کر رہے تھے اور کچھ گھڑسواری کر رہے تھے۔ لیکن وہ عمارتیں چونکہ انتظامی عمارت کے عقب پر واقع ہیں اس لیے حملہ آور ان تک نہ پہنچ سکے۔
جاری بیانات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور جیش الہند نامی تنظیم کا نام لیا گیا لیکن انڈپینڈنٹ اردو کو جائے وقوع پہ سر پر باندھنے والا کپڑا دکھایا گیا جس پر ’خصوصی اشتہادی فورس ٹی ٹی پی‘ درج تھا۔ فوٹیج کے مطابق یہ ایک حملہ آور نے اپنے سر پر باندھ رکھا تھا۔
کرنل شاہد نے بتایا کہ ’645 طالبعلم اب تک اس ادارے سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اٹھارہ سے انیس گھنٹے یہ بچے بھوکے پیاسے فرش پر بیٹھے رہے۔ دس نومبر کی شام چار بجے حملہ ہوا اور اگلی صبح گیارہ بجے ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا تھا کیونکہ صبح کی روشنی کا انتظار کیا جا رہا تھا تاکہ حملہ آور رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر طلبا پر حملہ نہ کریں۔ عسکریت پسند نے شام کو حملہ اس لیے کیا کہ زیادہ جانی نقصان ہو اور رات کی تاریکی میں وہ خود بھی چھپ کر وار کر سکیں۔ چھ گھنٹوں تمام طلبا کا ریسکیو مکمل ہو گیا۔‘
کرنل طاہر نے بتایا کہ ’ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کالج کے مرکزی گیٹ سے ٹکرائی تاکہ باقی دہشت گرد اندر داخل ہو سکیں۔ دھماکے کے فوراً بعد سکیورٹی فورسز موقع پر پہنچیں اور دہشت گردوں کو رہائشی عمارتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی انگیج کر لیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے لمحہ بہ لمحہ آپریشن کی نگرانی کی اور واضح ہدایت دی کہ طلبہ کو کسی بھی قیمت پر نقصان نہ پہنچے۔ فورسز نے نہایت مہارت اور منصوبہ بندی سے آپریشن جاری رکھا تاکہ کیڈٹس اور عملے کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔‘
طلبہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کے پاس موبائل فون تو نہیں تھے کیونکہ موبائل رکھنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے گھر والوں سے رابطہ نہیں تھا۔‘ انہوں نے کہا کہ ڈر نہیں لگا کیونکہ ڈرل کرتے رہتے ہیں ہمارے ڈرل افسر بھی ہمارے ساتھ ہی محصور تھے اس لیے ہمیں کچھ تسلی تھی۔ ہمیں زیادہ فکر آٹھویں نویں جماعت والے طلبہ کی تھی کیونکہ وہ چھوٹے ہیں اور ہمیں ان کو بھی حوصلہ دینا تھا۔‘