موسم سرما کی پہلی تیز بارش نے غزہ میں پھیلی ہوئی المواصی خیمہ بستی کے کئی حصے زیر آب آ گئے اور مکینوں کی مشکلات بڑھ گئیں۔ یہ علاقہ دو سال کی اسرائیلی جارحیت نے نتیجے میں تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نبرد آزما ہے۔
کیمپ کے رہائشیوں نے بارش پانی کو اپنے خیموں میں آنے سے روکنے کے لیے نالیاں کھودنے کی کوشش کی۔ جمعہ کو شروع ہونے بارش وقفے وقفے کے ساتھ جاری رہی اور ترپالوں اور عارضی پناہ گاہوں میں لگے خیموں کے سورراخوں سے بارش کا پانی ٹپکتا رہا۔
زور دار بارش نے خاندانوں کے تھوڑے سے سامان کو بھی گیلا کر دیا جب کہ تیز ہوا کی وجہ سے خیمے اکھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ بارش کم یاب خوراک اور رسد اکٹھا کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بھی ڈال سکتی ہے۔
دو ہفتے قبل باسل نجار نے بلیک مارکیٹ سے تقریباً 712 ڈالر کے مساوی رقم میں ایک نیا خیمہ خریدا، کیوں کہ گرمیوں کی دھوپ نے اس کا پرانا خیمہ بوسیدہ کر دیا تھا۔ خیمہ نیا ہونے کے باوجود بارش کا پانی اس میں سے ٹپکتا رہا۔
نجار نے کہا کہ ’میں نے سارا دن اپنے خیمے سے پانی باہر نکالتے ہوئے گزارا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پڑوسیوں کے خیمے اور سامان تباہ ہو گیا۔ ’پانی کئی انچ تک کھڑا ہے اور نکاسی آب کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔‘
بچے ننگے پاؤں گڑھوں میں چھینٹیں اڑاتے رہے جب کہ خواتین سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسمان تلے باہر چائے بنا رہی تھیں۔ کچھ لوگوں نے تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ان میں بھی جن کے گرنے کا خطرہ تھا۔ ان عمارتوں کی دیواروں میں بنے بڑے بڑے سوراخوں کو پلاسٹک شیٹس کی مدد سے بند کر دیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق، رواں سال کے اوائل میں المواصی میں چار 425,000 تک بے گھر فلسطینی پناہ گزین تھے، جن کی بڑی اکثریت عارضی خیموں میں تھی، جب اسرائیل کی حماس کے ساتھ جنگ نے غزہ کی 20 لاکھ سے زائد آبادی کی اکثریت کو بے گھر کر دیا ہے۔
حملوں کے آغاز میں اسرائیل کی جانب سے انسانی ہمدردی کا علاقہ قرار دیے جانے سے قبل المواصی میں زیادہ ریت کے ٹیلے تھے۔
غزہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار اسرائیلی دفاعی ادارے کا کہنا ہے کہ وہ سردی سے بچاؤ کے سامان بشمول کمبل اور موٹی ترپالیں لانے کی اجازت دے رہا ہے، لیکن امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یہ کوششیں اس وقت بالکل ناکافی ہیں جب سردیوں میں درجہ حرارت گر جاتا ہے اور بحیرہ روم سے تیز ہوائیں چلتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ میں پیر کو ووٹنگ متوقع
جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اگلا اور اس سے بھی زیادہ مشکل مرحلہ غزہ کے لیے ایک حکومتی ادارہ کے قیام اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ان دونوں معاملات میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک اور اہم سوال حماس کو غیر مسلح کرنے کی تجویز ہے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیر کو روس، چین اور بعض عرب ممالک کی مخالفت کے باوجود، غزہ میں استحکام فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی ایک امریکی تجویز پر ووٹنگ متوقع ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ علاقے کی تباہی اسرائیلی قیدیوں کی باقیات کو تلاش کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہے، لیکن اسرائیل نے فلسطینی تنظیم پر سست روی کا الزام عائد کیا ہے۔
اسرائیل ہر ایک اسرائیلی قیدی کی باقیات کے بدلے 15 فلسطینیوں کی باقیات واپس کر رہا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے ہفتہ کو بتایا کہ اسرائیل نے 330 باقیات واپس کی ہیں، اور ان کی واپسی پر صرف 97 کی شناخت ہو سکی ہے۔ غزہ میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کٹس کی کمی کے باعث شناخت کا عمل پیچیدہ ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم میں 69100 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ وزارت صحت اپنے اعداد و شمار میں عام شہریوں اور جنگجوؤں میں تفریق نہیں کرتی۔ یہ وزارت، جو حماس کے زیر انتظام حکومت کا حصہ ہے اور طبی پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے، تفصیلی ریکارڈ رکھتی ہے جسے آزاد ماہرین عمومی طور پر قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔