یورپی نوآبادیات کی تاریخ تو پرانی ہے، مگر صنعتی انقلاب کے بعد یہ ایک نئی قوت اور طاقت کے ساتھ ابھرا۔ یہ وہ عہد تھا کہ جب ایشیا کے ممالک سیاسی طور پر کمزور ہو چکے تھے۔ افریقہ قبائل میں تقسیم تھا۔ غلاموں کی تجارت نے اسے اجاڑ دیا تھا۔ وہ کسی حملہ آور کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
یورپی نوآبادیاتی نظام یا کلونیل ازم کا آغاز تجارتی کمپنیوں سے ہوا۔ لیکن جب اہل یورپ نے ایشیا اور افریقہ کو فوجی لحاظ سے کمزور پایا تو انہوں نے ان ملکوں میں اپنی نوآبادیات قائم کرنے کا منصوبہ بنایا، تاکہ سیاسی اقتدار کے ساتھ ان کو تجارت میں بھی فائدہ ہو۔
یورپی فتوحات میں اس لیے کامیابی ہوئی کیونکہ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں نہ سیاسی استحکام تھا اور نہ قوم اور وطن کا کوئی تصور تھا۔ اس لیے یورپی ممالک بڑی تعداد میں اپنی فوج لے کر آئے اور فوجیوں کی کمی کو مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کر کے پورا کیا۔
مقامی لوگ غیر ملکی فوج میں شامل ہوئے کیونکہ ان کی اشرافیہ نے تمام مراعات پر قابو کر رکھا تھا، اور غریب عوام غربت اور مفلسی میں مبتلا تھے، لہٰذا ایشیا اور افریقہ میں نوآبادیات کے قیام میں مقامی لوگوں نے یورپیوں کی مدد کی۔
وہ یورپی ملک جنہوں نے نوآبادیاتی سلطنتوں کی بنیاد رکھی ان میں انگلستان، فرانس، نیدرلینڈ، بیلجیم، اٹلی اور جرمنی شامل تھے۔
نوآبادیات کے بارے میں مورخوں نے دو نقطہ نظر دیے ہیں: ایک یہ تھا کہ نوآبادیات پر قبضے کے بعد اس کے شہروں اور دیہاتوں میں گھروں اور عمارتوں کو مسمار کیا جائے تاکہ لوگوں میں ڈر پیدا ہو جائے۔ دوسری پالیسی یہ تھی کہ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تعمیری کام کیے جائیں۔ سڑکیں، سکول اور ہسپتال قائم کیے جائیں تاکہ لوگ ان کے ساتھ تعاون کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مورخوں نے نوآبادیاتی نظام کے دو پہلوؤں کے بارے نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے ایک ملاپ (Assimilation) ہے۔ یہ فرانس کی پالیسی تھی جب فرانس میں 1793 کا دستور نافذ کیا گیا تو اس میں فرانس کی تمام نوآبادیات کے لوگوں کو برابر کے شہری حقوق دیے۔ دوسری پالیسی Association کی تھی یعنی جس میں نوآبادیاتی معاشرے سے قریبی تعلق رکھا جاتا تھا۔
سیاسی اقتدار دو قسم کا تھا۔ ایک میں نوآبادیات کے قیام اور انتظام کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی نگہداشت کی جاتی تھی۔ دوسرا پرٹیکٹوریٹ ہوتا تھا۔ اس میں حکمراں مقامی ہوتے تھے مگر وہ یورپی ملک کے ماتحت ہوتے تھے۔
جب کالونیز کا قیام عمل میں آیا تو ایک پالیسی کے تحت مختلف اداروں کے ذریعے اس کے ماحول اور حالات کو سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں جغرافیہ کے ذریعے اس کی آب و ہوا، زراعت، آب پاشی، دریاؤں اور پہاڑوں پر تحقیق کی گئی کہ ان کے جغرافیائی حالات کیا ہوتے ہیں کیونکہ اہل یورپ کے لیے ایشیا اور افریقہ کی اب و ہوا مختلف تھی اس لیے وہ وباؤں اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے تھے۔
ان میں ملیریا، ہیضہ، یرقان اور دوسری ایسی بیماریاں تھیں جن میں سفید فام مبتلا ہو کر جلد ہی مر جاتے تھے۔ ان کے علاج کے لیے یورپی ملکوں نے سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی۔
اس کے علاوہ نوآبادیات کی تاریخ، ثقافت زبانوں کو سیکھنے کے لیے ادارے قائم کیے۔ یورپی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں ایسے شعبے تیار کیے گئے جو نوآبادیات کی ثقافت پر تحقیق کریں اور یورپی ملکوں کی مدد کریں۔
نوآبادیات میں اہم کردار ادا کرنے والے عیسائی مشنریز تھے۔ ان میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ دونوں شامل تھے۔ مذہب کی تبلیغ کے لیے یورپ کے لوگ انہیں چندے بھیجا کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے تبلیغ کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے کھول لیے، مریضوں کے لیے ہسپتال قائم کیے اور غریبوں کے لیے خیرات کا سلسلہ شروع کیا۔
ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اگر لوگوں کی اکثریت مسیحی ہو گی تو نوآبادیات پر یورپ کا تسلط قائم ہو جائے گا۔ لیکن مسیحیت کی یہ تبلیغ ایشیا اور افریقہ کی نوآبادیات میں مختلف شکلوں میں ابھری۔ مثلاً ہندوستان میں اونچی ذات کے ہندو اور مسلم اشرافیہ مسیحی نہیں ہوئے۔ مسیحیت اختیار کرنے والوں میں نچلی ذات کے کچلے ہوئے عوام تھے۔ انہوں نے اس امید پر مذہب تبدیل کیا کہ شاید مذہب کی تبدیلی ان کی سماجی حالت کو بدل دے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ آج بھی انڈیا اور پاکستان میں مسیحیوں کا سماجی رتبہ مساوی نہیں ہے۔
افریقہ میں بھی معاشرے میں اکثریت مسیحی نہیں ہوئی اور ایک طبقے نے اس کو اختیار کر کے اپنی ثقافت اور شناخت کو کھو دیا۔
یورپی طاقتوں کو نوآبادیات سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں غریب اور بے روزگار مل گئے جنہوں نے ان کے سیاسی تسلط کے لیے کام کیا۔ مثلاً ہندوستان میں انگریز راج نے بےروزگار لوگوں کو فوج اور سرکاری انتظامیہ میں ملازم کر کے انہیں اپنی فتوحات اور سیاسی استحقام کے لیے افریقہ میں کینیا، نائجیریا، گھانا اور یوگنڈا میں لے گئے جہاں ہندوستانیوں نے ریلوے میں ملازمت کی، وہاں کی کی انتظامیہ میں حصہ لیا، کاشت کاری کی اور معدنیات کی کانوں میں محنت و مشقت کی۔
دوسری جانب انہیں برما، سنگاپور اور ملایا میں لے جایا گیا۔ ہندوستانی جزائر غرب الہند میں گئے جہاں آج بھی ان کی خاصی تعداد موجود ہے، لہٰذا یورپی نوآبادیاتی نظام نے ایشیا اور افریقہ کی حالت کو بدل ڈالا۔
نوٹ: کلونیل ازم کے جن مراحل کو یورپی ملکوں نے اختیار کیا تھا اس کی مزید تفصیل ایل ایل ویسلنگ کی کتاب "The European Colonial Empires" سے مل سکتی ہے۔