ضمنی الیکشن: مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں کانٹے دار مقابلے کی توقع

پنجاب میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کے سات حلقوں سے مجموعی طور پر105 امیدوار آمنے سامنے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔

ایک خاتون آٹھ فروری 2024 کو پاکستان کے عام انتخابات کے دوران لاہور میں ایک پولنگ سٹیشن پر اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں (اے ایف پی)

پنجاب میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی سات جبکہ خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے 18 ہری پور کی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے سلسلے میں آج پولنگ جاری ہے۔

پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مختلف وجوہات کے باعث خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں۔ زیادہ تر سیٹوں پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

پنجاب میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کے سات حلقوں سے مجموعی طور پر 105 امیدوار آمنے سامنے ہیں، جن میں سے 82 آزاد امیدوار ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر امن وامان یقینی بنانے کے لیے فوج اور سول آرمڈ فورسز کے مجاز افسروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں۔

وزارت داخلہ کے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ضمنی انتخابات میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے آرٹیکل 220 اور 245  کے تحت فوج طلب کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رینجرز اور پولیس بھی تعینات ہوگی۔ 

انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو نوٹس جاری کیا تھا۔

وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کو بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر 50 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ نوٹس جاری کیا گیا جبکہ وفاقی وزیر اویس لغاری اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو بھی طلبی کے نوٹس جاری کیے گئے تھے۔

ضمنی انتخاب میں کون کس کے مد مقابل؟

پنجاب میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر پی ٹی آئی کے بائیکاٹ جب کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے امیدوار کھڑے نہ کرنے پر این اے 66 اور این اے 96 سے مسلم لیگ ن کے دو امیدوار بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد پنجاب میں اب قومی اسمبلی کی چار سیٹوں پر انتخاب ہوگا۔

قومی اسمبلی کے حلقہ 18 ہری پورمیں کل 13 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے ہیں، جن میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ شہرناز عمر ایوب، ن لیگ کے بابر نواز خان اور پیپلزپارٹی کی ارم فاطمہ ترک کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 129 میں سب سے بڑا مقابلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ رکن اسمبلی میاں اظہر کی وفات سے خالی اس نشست پر ان کے بیٹے حماد اظہر کے کزن چوہدری ارسلان احمد جبکہ مسلم لیگ ن کے حافظ محمد نعمان میں کانٹے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ یہاں کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار وقاص احمد سمیت کل 17 امیدوار میدان میں ہیں۔

فیصل آباد کی نشست این اے 96 سے مسلم لیگ ن کے بلال بدر چوہدری کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ یہاں تحریک انصاف نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل آباد کی ہی قومی اسمبلی کی نشست 104 پر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کی نومئی کیسوں میں سزا کے بعد نااہلی سے خالی نشست پر کل 12 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ن لیگ نے راجہ دانیال احمد کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ باقی امیدواروں کو کسی جماعت نے باقاعدہ ٹکٹ جاری نہیں کیا البتہ آزاد امیدواروں کی حمایت کی جا رہی ہے۔

ساہیوال میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 143 پر بھی 11 امیدوار ہیں لیکن یہاں بھی صرف مسلم لیگ ن نے چوہدری طفیل جٹ کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے یہاں کسی امیدوار کی حمایت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔

ڈیرہ غازی خان میں این اے 185جو پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل کی نااہلی سے خالی ہوئی اس پر پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار دوست محمد کھوسہ اور مسلم لیگ ن کے محمود قادر لغاری کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

 پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں ‏پی پی 73 سرگودھا، فیصل آباد کے پی پی 115، پی پی 116، پی پی 98، اور پی پی 87 میانوالی، پی پی 269 مظفر گڑھ اور پی پی 203 ساہیوال پر ضمنی الیکشن ہورہا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ پنجاب میں انتخابی مہم کے دوران ان کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ہراساں کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے۔

دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت انتشار کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’ملک میں سیاسی استحکام کا تسلسل، پارلیمنٹ کے آئینی اختیارات کا احترام اور تشدد و انتشار کی مکمل روک تھام حکومت کی قومی سطح کی سب سے بڑی ترجیحات ہیں۔ کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت اگر تشدد کا راستہ اختیار کرے تو وہ نہ سیاست کر سکتی ہے اور نہ ہی جماعت چلا سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست