10 نومبر کو 13 سال کے وقفے کے بعد، نئی دہلی کے تاریخی لال قلعہ کے قریب ایک کار میں ہونے والے دھماکے میں 15 لوگوں کی جان گئی اور 20 زخمی ہوئے۔
پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے، جس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہندو سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، کے بعد جارحانہ مؤقف کے برعکس، اس بار نئی دہلی نے زیادہ محتاط رویہ اپنایا اور کسی نتیجے پر فوراً پہنچنے کی بجائے، 48 گھنٹے بعد لال قلعہ کار دھماکے کو دہشت گردی کا ’واقعہ‘ قرار دیا، نہ کہ دہشت گرد ’حملہ‘ کہا۔
’واقعے‘ کی اصطلاح ’حملے‘ کے مقابلے میں کہیں کم مخصوص ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ حکومت نے اس کے پیچھے ’ملک دشمن عناصر‘ کا ہاتھ قرار دیا، جو بیرونی الزام تراشی، خصوصاً پاکستان کی طرف اشارہ کرنے کی بجائے داخلی توجہ کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ لال قلعہ دھماکے سے قبل، جموں و کشمیر پولیس نے علاقے میں جیش محمد کے حق میں لگنے والے مشکوک پوسٹرز کی تحقیقات شروع کی، جس سے فرید آباد کے ایک میڈیکل کالج سے وابستہ ڈاکٹرز پر مشتمل ایک دہشت گرد نیٹ ورک کا سراغ ملا۔
چھاپوں کے دوران پولیس نے 3000 کلوگرام دھماکا خیز مواد برآمد کیا اور متعدد اہم گرفتاریاں کیں، تاہم ایک ڈاکٹر گرفتاری سے فرار ہو گیا اور شبہ ہے کہ لال قلعہ کے قریب ہونے والے کار دھماکے میں اسی کا ہاتھ تھا۔ تحقیقات یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ وہ دھماکا خیز مواد لے کر بھاگ رہا تھا، جو اس کی گاڑی میں اچانک پھٹ گیا۔
پہلگام حملے کے برعکس، جس کی ذمہ داری ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) نے قبول کی تھی اور بعد میں اس سے انکار بھی کیا، لال قلعہ دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے باضابطہ طور پر قبول نہیں کی۔
مئی میں، انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سات تا 11 مئی کے تصادم کو ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مستقبل میں انڈیا میں پاکستان کی طرف سے کوئی دہشت گرد حملہ ہوا تو اسے ’جنگ کا عمل‘ تصور کیا جائے گا۔ مزید برآں، انہوں نے خبردار کیا تھا کہ انڈیا نہ صرف حملہ کرنے والوں بلکہ منصوبہ سازوں کو بھی نشانہ بنائے گا۔
تاہم، لال قلعہ دھماکے کے بعد پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے انڈیا کا گریز چار ممکنہ عوامل میں جڑا ہوا ہے۔
اول یہ کہ سات سے 11 مئی کے تصادم کے بعد پاکستان کے خلاف عسکری تنازعے کی نئی سرخ لکیر کھینچنے اور جنگ کے امکان کی حد کم کرنے کے باعث، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) خود ہی اپنے بیانیے کے جال میں پھنس گئی۔ وہ اپنی ہی بیان بازی کی اسیر بن گئی اور داخلی سطح پر عوامی توقعات اس قدر بڑھا دیں کہ اگر اس نے لال قلعہ دھماکے کا الزام پاکستان پر لگایا ہوتا تو انڈین عوام اپنی حکومت پر پاکستان سے جنگ کرنے کا دباؤ ڈال دیتے۔
مزید یہ کہ مودی کا یہ سیاسی بیان جو بنیادی طور پر اندرونی عوامی تاثر کے لیے دیا گیا تھا، بطور پالیسی کوئی حقیقی معنویت نہیں رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر، یہ واضح نہیں تھا کہ کس قسم کا دہشت گرد حملہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا باعث بنے گا؟ کیا اگر پاکستان سے جڑا ایک ایسا حملہ ہو جس میں صرف ایک فرد مارا جائے ہو تو کیا اس بنیاد پر دو ایٹمی ممالک جنگ شروع کر دیں گے؟
یوں بی جے پی نے اندرونی سیاسی فائدے کے لیے ایسی مبہم باتیں کیں جنہوں نے جگہ جگہ سوالات چھوڑ دیے۔ اگر دہلی پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتی اور لال قلعہ دھماکے کو دہشت گرد حملہ قرار دیتی تو داخلی سطح پر اس پر بھرپور عسکری ردعمل دینے کا دباؤ بڑھ جاتا۔
دوم، انڈیا کا پاکستان پر الزام نہ دھرنے کی ایک اور ممکنہ وجہ وہ ساکھ کا نقصان ہے، جو اسے مئی کے تنازعے کے دوران سٹرٹیجک رابطے کے محاذ پر اٹھانا پڑا۔ میدانِ جنگ میں رسوائی کے علاوہ، انڈیا کی معلوماتی جنگ بھی کئی محاذوں پر ناکامی کا شکار ہوئی۔ مثلاً کراچی پورٹ کو تباہ کرنے اور لاہور پر قبضہ کرنے جیسے جھوٹے دعوے۔
مزید اہم بات یہ کہ تنازعے سے پہلے انڈیا عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی قابل بھروسہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا۔ انڈیا نے ماضی کے واقعات کو جواز بنا کر پاکستان پر الزام لگایا اور جنگ چھیڑ دی، لیکن ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اسے مغربی دنیا سے کوئی سفارتی حمایت نہ مل سکی۔ نتیجتاً انڈیا ایک جارح ملک کے طور پر سامنے آیا، جسے کائنیٹک اور نان کائنیٹک دونوں محاذوں پر ذلت آمیز شکست ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی کانگریس کی حالیہ رپورٹ نے بھی انڈیا کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔ ایسے حالات میں اگر دہلی نے دوبارہ پاکستان پر الزام لگایا ہوتا تو عالمی برادری اس سے ناقابل تردید شواہد کا مطالبہ کرتی۔ انڈیا کو پہلگام کے بعد ہونے والی عسکری پسپائی نے یہ سبق دے دیا ہے کہ اب وہ دور نہیں رہا، جب اس کا محض بیانیہ ہی پاکستان کے خلاف الزام تراشی کے لیے کافی ہوتا تھا۔
سوم، پاکستان پر الزام تراشی سے انڈیا کی ہچکچاہٹ کی ایک اور وجہ ممکنہ عسکری شکست کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔ پہلگام کے بعد ہونے والے تصادم میں انڈیا اپنے کم از کم پانچ سے چھ جنگی طیارے، جن میں فرانس کے رفال طیارے بھی شامل ہیں، گنوا بیٹھا۔
پاکستان پر مختصر جنگ مسلط کرنے اور جیتنے کی انڈین صلاحیت پر سنجیدہ سوالات اٹھے، جس کی وجہ سے چین کے خلاف انڈیا کو تزویراتی توازن کے طور پر مضبوط بنانے کی امریکی سوچ میں بھی تبدیلی آئی۔ انڈیا کا خود کو ایشیا کا ’نیٹ سکیورٹی پرووائیڈر‘ سمجھنے کا دعویٰ ایک چھوٹے پڑوسی یعنی پاکستان کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد شدید متاثر ہوا۔ اس لیے انڈیا نہ عملی طور پر اور نہ ہی نفسیاتی طور پر مزید نقصان برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے اس بار ماضی کی طرح کھلی جارحیت کے بجائے محتاط راستہ اپنایا۔
چہارم، جغرافیائی سیاست کے تناظر میں بھی انڈیا پر پاکستان کو مورد الزام نہ ٹھہرانے کا دباؤ موجود تھا۔ مئی کے تنازعے کے بعد سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں ممالک کو جنگ بندی پر آمادہ کیا اور ممکنہ جوہری جنگ کو روکا۔
اس وقت انڈیا اور امریکہ کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ طے پانے کے آخری مراحل میں ہے، جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی 50 فیصد ٹیرف کم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے حساس مذاکرات کے دوران اگر انڈیا نے پاکستان پر ایک اور دہشت گرد حملے کا الزام لگایا ہوتا، بغیر کسی ثبوت کے اور اس کے نتیجے میں کوئی عسکری کارروائی ہوتی، تو اس سے نہ صرف یہ مذاکرات پٹڑی سے اتر جاتے بلکہ ٹرمپ مزید ناراض ہو سکتے تھے، جو پہلے ہی انڈیا سے اس لیے نالاں ہیں کہ اس نے جنوبی ایشیا میں ان کی ’امن قائم کرنے‘ کی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا۔
بہرحال، جنوبی ایشیا میں صورت حال تاحال کشیدہ ہے کیونکہ انڈیا کی جارحانہ حکمتِ عملی برقرار ہے اور اس نے واضح کر رکھا ہے کہ ’آپریشن سندور‘ ختم نہیں بلکہ صرف معطل ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔