خودکش جیکٹ قبرستان سے لی اور گڑ کی بوری میں اسلام آباد لایا: سہولت کار

عطا تارڑ نے بتایا کہ جوڈیشل کمپلیکس پر خودکش حملہ محض ایک واردات نہیں بلکہ ایک مربوط اور منظم نیٹ ورک کا حصہ تھا جسے سرحد پار بیٹھے دہشت گرد کنٹرول کر رہے تھے۔

اسلام آباد خودکش حملہ آور کے سہولت کار ساجد اللہ نے ویڈیو بیان میں جیکٹ وفاقی دارلحکومت لانے کی کہانی بیان کی (حکومت پاکستان ویڈیو)

حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ جی الیون کچری کے باہر خودکش حملے کے مبینہ سہولت کار ساجد اللہ نے پشاور کے اخوند بابا قبرستان کے قریب سے خودکش جیکٹ حاصل کی اور اسے گڑ کی بوری میں چھپا کر اسلام آباد پہنچایا جہاں اسے ایک نالے کے ذریعے خودکش حملہ آور تک پہنچایا گیا۔

یہ بات ساجد اللہ عرف شینا نے ایک ریکارڈڈ بیان میں بتائی جسے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں منگل کو پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے پیش کیا۔

وفاقی وزیر نے حکومتی الزام دوہرایا کہ جی الیون کچہری میں ہونے والے خودکش حملے کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں جہاں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے اسلام آباد میں بڑی تباہی کا منصوبہ بنایا تھا۔

11 نومبر کو اسلام آباد کے ضلعی عدالت کمپلیکس کے داخلی دروازے پر ہونے والے دھماکے میں 12 افراد جان سے گئے اور لگ بھگ تین درجن زخمی ہوئے تھے۔ تقریباً تین سال بعد یہ وفاقی دارالحکومت میں پہلا بڑا خودکش حملہ تھا اور ملک بھر میں بڑھتے ہوئے عسکریت پسند حملوں کی تازہ لہر سے جڑا ہوا ہے۔

پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ نے بتایا کہ یہ حملہ افسوسناک تھا لیکن اس کے فوراً بعد سکیورٹی اداروں نے پوری کارروائی کو ٹریس کرکے نیٹ ورک بے نقاب کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے مشترکہ کارروائی کے دوران ٹی ٹی پی سے وابستہ چار افراد کو گرفتار کر چکا ہے۔

اعترافی بیان کی ویڈیو میں ساجد اللہ نے بتایا کہ وہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کمانڈر داد اللہ کے ساتھ رابطے میں تھا، جس نے ٹیلی گرام کے ذریعے اسلام آباد میں خودکش حملے کی ہدایت جاری کی۔ اس بیان کی آذاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

دوران تفتیش، ساجد اللہ نے اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی کمانڈر سعید الرحمن عرف داداللہ (ساکن چرمانگ، باجوڑ، حال مقیم افغانستان اور باجوڑ کے نواگئی کے لیے ٹی ٹی پی کا انٹیلی جنس چیف) نے اسے ٹیلی گرام ایپلی کیشن کے ذریعے رابطہ کرکے اسلام آباد میں خودکش حملہ کروانے کا کہا، تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داد اللہ نے ساجد اللہ کو خودکش بمبار عثمان عرف ’قاری‘ کی تصاویر بھیجیں تاکہ وہ اسے پاکستان میں وصول کرے۔ عثمان کا تعلق شینواری قبیلے سے تھا اور وہ اچین، ننگرہار، افغانستان کا رہائشی تھا۔ خودکش بمبار افغانستان سے پاکستان پہنچا تو ساجد اللہ نے اسے اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ٹھہرایا۔

ساجد اللہ کے مطابق حملہ آور کو رہائش، نقل و حرکت اور خودکش جیکٹ کی فراہمی تمام طور پر افغانستان کی ہدایات کے تحت کی گئی۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ حملہ پاکستان میں موجود ایک آپریشنل سیل کے ذریعے کیا گیا، جبکہ اس کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کرتی رہی۔ مرکزی کمانڈر سعید الرحمان عرف داد اللہ افغانستان سے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے ہدایات دے رہا تھا اور اسی نے حملے کا حکم جاری کیا۔

عطا تارڑ نے بتایا: ’اگست 2025 میں ساجد اللہ شینا اور داد اللہ سے ملاقات کے لیے افغانستان گئے، فتنہ الخوارج کے دہشتگرد عبداللہ جان عرف ابوحمزہ سے بھی یہ شیگل ضلع میں ملے، شیگل سے یہ کابل پہنچے اور وہاں داد اللہ سے ملاقات ہوئی، داد اللہ نے انہیں راولپنڈی اسلام آباد میں خودکش حملے کے حوالے سے نور ولی محسود کے احکامات پہنچائے۔‘

عطا تارڑ نے مزید بتایا کہ حملے کے ہینڈلر، سہولت کار اور رابطہ کاروں کی گرفتاری سے نہ صرف مزید دہشت گرد کارروائیوں کو روکا جا سکا بلکہ مستقبل میں ایسے حملے روکنے کے لیے بھی اہم معلومات حاصل ہوئیں۔

 

انہوں نے الزام عائد کیا کہ جوڈیشل کمپلیکس پر خودکش حملہ محض ایک واردات نہیں بلکہ ایک مربوط اور منظم نیٹ ورک کا حصہ تھا جسے سرحد پار بیٹھے دہشت گرد کنٹرول کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تفتیشی اداروں تحقیق میں حملے کے محرکات کے ساتھ ساتھ اس پورے نیٹ ورک کی ساخت اور طریقہ کار کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ ساجد اللہ نے 2015 میں تحریک طالبان افغانستان میں شمولیت اختیار کی اور افغانستان کے اندر مختلف ٹریننگ کیمپس میں تربیت حاصل کی اور 2023 میں انہیں داد اللہ سے متعارف کرایا گیا تھا۔

عطا تارڑ کے مطابق یہ حملہ کسی ایک مقام تک محدود نہیں ہونا تھا۔ دہشت گرد نے اس سے قبل ایک اور بڑی کارروائی کی کوشش کی تھی جو ناکامی کا شکار ہوئی۔

حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں اور مزید انکشافات اور گرفتاریاں متوقع ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان