انڈین حکومت نے ملک میں کام کرنے والی بڑی فون ساز کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک سرکاری ایپ کو ہر نئے موبائل فون کے نظام کا حصہ بنائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صارفین اس ایپ کو فون سے ہٹا نہ سکیں۔
اس حکومتی اقدام نے ان خدشات کو دیا ہے کہ ریاست صارفین کی نگرانی کرنا چاہتی ہے۔
28 نومبر کو خاموشی سے جاری کیے گئے حکم میں فون بنانے والی کمپنیوں کو 90 دن دیے گئے ہیں تاکہ وہ آنے والے تماماسمارٹ فون ماڈلز میں سنچار ساتھی نامی ایپ پہلے سے فون میں شامل کریں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ جو ڈیوائسز پہلے ہی رسد کے نظام میں موجود ہیں، ان میں یہ ایپ سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کے ذریعے بھیجی جائے۔
سرکاری حکام نے اس اقدام کو بڑھتے ہوئے سائبر خطرات کے خلاف ضروری دفاع کے طور پر پیش کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ سافٹ ویئر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوری ہونے والے موبائل فونز کا سراغ لگانے اور جعلی فونز کو گرے مارکیٹ میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔
لیکن اس حکم نے پرائیویسی کے حامیوں میں تشویش پیدا کر دی ہے اور ممکن ہے کہ ایپل کے ساتھ ٹکراؤ بھی ہو۔
یہ حکم، جو روئٹرز نے دیکھا، عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا اور اسے مخصوص برانڈز، جن میں ایپل، سام سنگ، ویوو، اوپو اور شیاؤمی شامل ہیں، کے ساتھ نجی طور پر شیئر کیا گیا۔ نئی دہلی کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام سائبر جرائم میں اضافے، فون سے جڑی دھوکہ دہی اور چوری شدہ ڈیوائسز کی دوبارہ فروخت سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
اپوزیشن کی کانگریس پارٹی نے فوری طور پر اس فیصلے کی واپسِی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ اقدام شہریوں کے نجی زندگی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ کانگریس کے جنرل سیکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہا: ’بگ برادر ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔ ڈی او ٹی (ڈپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونی کیشنز) کی یہ ہدایت مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔
نجی زندگی کا حق آئین کے آرٹیکل 21 میں درج حقِ زندگی اور آزادی کا بنیادی حصہ ہے۔
’ایک سرکاری ایپ جو فون سے نکالی نہیں کی جا سکتی، ہر انڈین کی نگرانی کے لیے ایک زبردستی کا آلہ ہے۔ یہ ہر شہری کی ہر حرکت، ہر رابطے اور ہر فیصلے پر نظر رکھنے کا ذریعہ ہے۔
’یہ ان مسلسل حملوں کا حصہ ہے جو انڈین شہریوں کے آئینی حقوق پر کیے جا رہے ہیں اور اسے جاری نہیں رہنے دیا جائے گا۔
’ہم اس ہدایت کو مسترد کرتے ہیں اور فوری واپسِی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایپ، جو جنوری میں متعارف کرائی گئی، سات لاکھ سے زیادہ گم شدہ فون واپس دلوانے میں مدد کر چکی ہے، جن میں صرف اکتوبر میں 50 ہزار فون شامل ہیں، اور اس نے کروڑوں جعلی موبائل کنکشنز تک رسائی کم کرنے میں بھی مدد کی ہے۔
حکام کہتے ہیں کہ سنچار ساتھی کا مقصد ان خطرناک ٹیلی کام سائبرسکیورٹی مسائل کو روکنا ہے جن کا تعلق جعلی یا ڈپلیکیٹ آئی ایم ای آئی نمبرز سے ہوتا ہے، جو ہر فون میں شامل منفرد 14 سے 17 ہندسوں پر مشتمل شناختی نمبر ہوتا ہے۔
یہ ایپ صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ چوری شدہ فون کو مختلف نیٹ ورکس پر بلاک یا ٹریک کر سکیں اور ایسے موبائل نمبرز کو بھی ختم کر سکیں جو دھوکے سے ان کے نام پر رجسٹر کیے گئے ہوں۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے ڈیجیٹل خود مختاری کمزور ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی ماہر وکیل اور انٹرنیٹ پالیسی کی ماہر مشی چوہدری کہتی ہیں کہ ’صارف کی رضامندی ایک بامعنی انتخاب ہے جسے حکومت مؤثر انداز میں ختم کر رہی ہے۔‘
نجی زندگی کے حامیوں نے اس سے پہلے روس پر بھی تنقید کی تھی جب اس نے اپنی ریاستی میسنجر سروس کے لیے اسی طرح کی شرط رواں سال عائد کی تھی۔
رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے ایکس پر لکھا: ’حکومتِ انڈیا کی طرف سے موبائل فون بنانے والی ہر کمپنی کے لیے سنچار ساتھی ایپ کو ایک مستقل فیچر کے طور پر لازمی قرار دینا بگ باس طرز کا نگرانی کا ایک اور عمل ہے۔ اس طرح کے مشکوک طریقوں سے لوگوں کے فونز میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے گی تو اس کی مزاحمت اور مخالفت ہوگی اور اگر آئی ٹی وزارت سمجھتی ہے کہ وہ مسائل کے حل کے مضبوط نظام بنانے بنانے کی بجائے نگرانی کے نظام بنائے گی تو اسے ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘
ایکس کے ایک اور صارف، تحسین پونا والا، نے لکھا: ’ناقابلِ قبول۔ انڈیا جاگ جاؤ۔ حکومت کی سنچار ساتھی ایپ کی شرط ہماری نجی زندگی اور آزادی پر کھلا حملہ ہے۔ اسے ہر نئے فون میں لازمی شامل کرنا اور صارف کو یہ حق نہ دینا کہ وہ ایپ کو نکال سکے، سب کچھ ’سکیورٹی‘ کے نام پر، حکومت کو یہ طاقت دے گا کہ وہ ہماری کالز، پیغامات اور مقام پر نظر رکھ سکے۔ یہ بدترین نگرانی ہے، اور حکومت مجرموں کی طرح ہمارا پیچھا کرنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔‘
کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے مطابق ایپل انڈیا کی سمارٹ فون مارکیٹ میں چھوٹا مگر مسلسل بڑھتا ہوئے حصے کا مالک ہے۔ 2025 کے وسط تک تقریباً 73.5 کروڑ ڈیوائسز میں سے ساڑھے چار فیصد۔ کمپنی طویل عرصے سے اس بات کے خلاف مزاحمت کرتی آئی ہے کہ سرکاری ایپس کو اس کے آپریٹنگ سسٹم پر زبردستی انسٹال کرایا جائے۔
ایپل، جو اس سے پہلے سرکاری اینٹی سپیم موبائل ایپ کی تیاری پر ٹیلی کام ریگولیٹر سے بھی الجھ چکا ہے، ان کمپنیوں میں شامل ہے، جیسے کہ سام سنگ، ویوو، اوپو اور شیاؤمی، جن پر اس نئے حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔
اگرچہ ایپل عام طور پر اپنی ایپس پہلے سے سسٹم میں شامل کرتا ہے، مگر اس کی داخلی پالیسی واضح طور پر فروخت سے پہلے کسی بھی سرکاری یا تھرڈ پارٹی سافٹ ویئر کی پیشگی انسٹال کرنے پر پابندی لگاتی ہے۔ کمپنی کے مؤقف سے واقف ایک شخص نے روئٹرز کو بتایا کہ دنیا بھر میں استثنیٰ کی درخواستیں مسلسل مسترد کی جاتی رہی ہیں۔
کاؤنٹر پوائنٹ کے ریسرچ ڈائریکٹر ترن پتھاک نے کہا کہ ایپل کی ایپل کا مؤقف جلد تبدیل ہونے کا امکان نہیں۔ ’ایپل نے ہمیشہ حکومتوں کی ایسی درخواستیں مسترد کی ہیں۔‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ کمپنی کوئی سمجھوتہ بھی کر سکتی ہے، مثلاً ایسا آن سکرین پیغام شامل کرنا جو صارف کو ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب دے، نہ کہ اسے مجبور کرے۔
’ممکن ہے کہ کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جائے۔ لازمی پیشگی انسٹالیشن کی بجائے اس نکتے پر بات چیت کریں کہ صارفین کو ایپ انسٹال کرنے پر مائل کرنے کا آپشن رکھا جائے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے انڈیا کی وزارت ٹیلی کام، ایپل، سام سنگ، ویوو، اوپو اور شیاؤمی سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انڈیا دنیا کی دوسری سب سے بڑی موبائل فون مارکیٹ ہے، جہاں 1.2 ارب سے زیادہ ٹیلی کام صارفین ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنچار ساتھی کو 50 لاکھ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے اور اس کے ذریعے 30 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ چوری یا گم شدہ فونز کو بلاک کیا گیا اور تیس کروڑ سے زیادہ جعلی موبائل کنکشنز ختم کیے گئے۔
ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کے نزدیک لازمی اور ایسی ایپ جسے ان انسٹال نہ کیا جا سکے، سرکاری سافٹ ویئر ایک پریشان کن مثال ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام پر لوگوں سے مشورہ نہ نگرانی اور ڈیٹا سکیورٹی سے متعلق سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سمارٹ فون پر مبنی شناخت، بینکاری اور رابطے کے آلات روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
ایکس کے ایک صارف، جو مہیت چوہان کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے لکھا: ’وہ ممالک جہاں شہریوں کے فونز میں ان انسٹال کرنے کی سہولت نہ دینے والی سرکاری موبائل ایپ لازمی ہے یعنی روس اور شمالی کوریا۔
’اب مودی حکومت نے سمارٹ فون بنانے والوں سے کہا ہے کہ وہ انڈیا میں تمام نئی ڈیوائسز میں ناقابلِ ان انسٹال، سرکاری ملکیت والی سنچار ساتھی ایپ پہلے سے شامل کریں۔‘
© The Independent