امریکہ میں نیشنل گارڈ حملے سے اب تک کم و بیش 24 افغان شہریوں کی گرفتاریاں

سیکرامنٹو میں رضاکاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے ICE آفس کے باہر کم از کم نو افغانوں کی گرفتاری دیکھنے میں آئی، جنہیں صبح سویرے فون کالز کے ذریعے فوری چیک اِن کے لیے بلایا گیا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی میں تین دسمبر 2025 کو نیشنل گارڈ کے ارکان گیلری پلیس میٹرو سٹیشن پر موجود ہیں (ایلکس وونگ / اے ایف پی)

امریکہ میں نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں پر افغان نژاد ملزم کے مبینہ حملے کے بعد امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے افغان شہریوں کی گرفتاریوں میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے تاحال کم و بیش 24 افغان شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔

امیگریشن وکلا اور رضاکاروں کے مطابق گرفتاریوں کی یہ تازہ لہر خصوصاً کیلیفورنیا کے علاقوں میں دیکھی گئی ہے، جہاں افغان کمیونٹی بڑی تعداد میں آباد ہے۔

گزشتہ ہفتے سیکرامنٹو میں ایک افغان خاندان کے سرپرست کو ICE آفس میں معمول کی چیک اِن کے دوران حراست میں لے لیا گیا۔ خاندان کی امداد کرنے والی رضاکار گیسل گارشیا کے مطابق متاثرہ شخص تمام قانونی تقاضے پورے کر رہا تھا اور ہر پیشی میں باقاعدگی سے شریک ہوتا رہا ہے۔

26  نومبر کو نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد ایسوسی ایٹڈ پریس نے کم و بیش 24 سے زائد افغان شہریوں کی گرفتاری کی نشاندہی کی ہے، جن میں زیادہ تر گرفتاریاں شمالی کیلیفورنیا میں ہوئیں۔

سیکرامنٹو میں رضاکاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے ICE آفس کے باہر کم از کم نو افغانوں کی گرفتاری دیکھنے میں آئی، جنہیں صبح سویرے فون کالز کے ذریعے فوری چیک اِن کے لیے بلایا گیا تھا۔

ان میں وہ افغان بھی شامل ہیں جو گزشتہ دو برسوں میں امریکہ۔میکسیکو بارڈر پر پناہ کی درخواست دینے آئے تھے، جب کہ کچھ افراد وہ تھے جو 2021 میں امریکی انخلا کے بعد ’آپریشن الائز ویلکم‘ کے تحت امریکہ لائے گئے تھے۔

ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ’بائیڈن دور میں امریکہ آنے والے تمام افغان شہریوں کی دوبارہ جانچ‘ کر رہی ہے۔

دوسری جانب محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی ترجمان ٹرائشیا میک لافلن نے کہا کہ ادارہ ’مشتبہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی شناخت اور گرفتاری کیلئے بھرپور کارروائیاں کر رہا ہے۔‘

وکلا: ’ایک شخص کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو دی جا رہی ہے‘

نیشنل گارڈ حملے کے ملزم 29 سالہ رحمان اللہ کو رواں سال سیاسی پناہ دی گئی تھی۔

حملے کے بعد امریکی حکومت نے افغان شہریوں سے متعلق کئی اقدامات عارضی طور پر معطل کر دیے ہیں، جن میں ویزا پراسیسنگ، پناہ کی درخواستیں اور اُن افغانوں کے کیس بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکی فورسز کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی کانگریس کے رکن امی بیرا نے کہا کہ ’یہ اجتماعی سزا کی مثال ہے۔ ایک فرد کے اقدام کی وجہ سے ان ہزاروں افغانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جنہوں نے امریکی فوج کے ساتھ دو دہائیوں تک قربانیاں دیں۔‘

چیک اِن کے بہانے حراست، گھروں کے باہر ایجٹس کی کارروائیاں

سیکرامنٹو میں یکم دسمبر کو افغان مردوں کو باری باری ICE آفس بلایا گیا، جہاں پہنچتے ہی انہیں ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا گیا۔ رضاکاروں کے مطابق بہت سے افراد پہلے ہی الیکٹرانک ٹخنے کی بیلٹ پہنے ہوئے تھے۔

آئیووا کے شہر ڈیس موئنز میں ایک افغان شہری کو دورانِ سفر روک کر دو گھنٹے حراست میں رکھا گیا، بعد میں غلطی تسلیم کرتے ہوئے رہا کر دیا گیا۔ شمالی کیلیفورنیا میں امیگریشن وکلا نے متعدد افغانوں کی گرفتاریوں یا انٹرویوز کی منسوخی کی تصدیق کی ہے۔

گرفتاریوں سے کمیونٹی میں خوف و ہراس

رضاکار گارشیا نے بتایا کہ وہ ICE آفس کی دیوار کے پیچھے سے ایک افغان شخص کو ہتھکڑی لگاتے ہوئے سن رہی تھیں۔ باہر آنے پر اس شخص کی اہلیہ زار و قطار رو پڑیں، جبکہ ان کی کم سن بیٹی ماں کو دلاسہ دیتی رہی۔

وکلا اور رضاکاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ کارروائیوں نے امریکہ میں آباد افغان کمیونٹی میں شدید خوف پیدا کر دیا ہے، جہاں بہت سے افراد تہلکہ خیز ممکنہ گرفتاریوں کے باعث گھروں سے نکلنے سے گریز کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ