’شام میں کارروائی کے لیے امریکہ نے ترکی کو ہری جھنڈی نہیں دی‘

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ’ترکی کے سکیورٹی خدشات جائز ہیں‘ تاہم امریکہ نے فوجی حملے کی حمایت نہیں کی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ’ترکی کے سکیورٹی خدشات جائز  ہیں‘ تاہم  امریکہ نے اسے شام میں جاری فوجی آپریشن کے لیے ہری جھںڈی نہیں دی اور اس کی کارروائی کے پیشِ نظر صدر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے شام سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مائیک پومپیو نے داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کے خدشات کو بھی مسترد کیا۔

انہوں نے ترکی کے حوالے سے مزید کہا: ’انہیں جنوب سے دہشت گردی کا خطرہ ہے۔‘

ترکی نے بدھ کو شام میں  کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا تھا۔ صدر رجب طیب اردوغان نے ٹوئٹر پر اس کا اعلان کیا جس کے بعد جنگی طیاروں نے بارڈر پر کرد چیک پوائنٹس کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔  

ترکی کی وزارت دفاع کے مطابق اس کے بعد  زمینی آپریشن بھی کیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترکی کی وزارت دفاع کے ٹوئٹر پر جاری بیان کے مطابق اب تک ترکی کی افواج نے 181 اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ سیئرین آوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ترکی کے حملوں میں کرد ملیشیا کے 16 ارکان ہلاک ہو گئے ہیں۔

سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے، جن میں کرد ملیشیا بھی شامل ہیں، علاقے میں نوفلائی زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی جمعرات کو طلب کر لیا گیا ہے۔

اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عرب لیگ نے بھی اس صورت حال پر 12 اکتوبر کو قاہرہ میں اجلاس طلب کر لیا ہے۔

ترکی کے صدر نے اس فوجی کارروائی کو ’آپریشن پیس سپرنگ‘ کا نام دیا ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی میں کرد ملیشیا امریکی حمایت سے داعش کے خلاف پانچ سال سے لڑ رہی تھی۔ امریکہ کے شام سے انخلا کے اعلان نے امریکہ کے کردوں سے اتحاد کو بری طری متاثر کیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق نیٹو چیف جینزسٹولٹنبرگ نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ کردوں کی خلاف اس کارروائی میں تحمل کا مظاہرہ کرے، کیونکہ اس صورت حال سے داعش کے خلاف جاری جنگ کو نقصان ہو سکتا ہے۔

کرد رہنماؤں نے اس حملے کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ ’انسانی بحران‘ کا ذمہ دار اپنے سابق اتحادی امریکہ اور عالمی برادری کو قرار دیا ہے۔ کرد ملیشیا کے مطابق سالوں تک داعش کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں ان کے 11 ہزار جنگجو ہلاک ہوئے۔

راس العین کا علاقہ جہاں سے امریکی فوج نے سوموار کو انخلا کیا ہے میں اس وقت کرد ملیشیا نے چیک پوائنٹس قائم کر رکھے ہیں، ٹائر جلا کر ترک فوج کی جانب سے نشانہ لینے کے لیے اہداف چننے کے عمل کو مشکل بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ راس العین کے 32 سالہ رہائشی کاس نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم اپنے علاقے کو نہیں چھوڑیں گے۔ سالوں سے اردوغان ہمیں روز جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ جنگ کئی سال سے ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس  فوجی کارروائی کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا: ’اگر ترکی نے یہ کارروائی انسانی انداز میں نہ کی تو میں ترکی کی معیشت کو مٹا کر رکھ دوں گا۔‘

صدر ٹرمپ کو اپنے اتحادیوں کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑنے پر کئی اطراف سے تنقید کا سامنا ہے۔

ری پبلکن سینیٹر لنزی گریم نے امریکی انتظامیہ کو ’کردوں کو شرمناک طریقے سے اکیلا چھوڑنے‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ برطانیہ اور فرانس سمیت روس، جو اب شام میں ایک اہم طاقت ہے، نے بھی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا