چند انچ کی گواہی اور تیل سے مرد بننے کے نسخے

تعجب کی بات یہ ہے کہ لڑکی کی باڈی شیمنگ میں صرف اس کے گھر والے اور قریبی لوگ ہی نہیں گھر والا اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی شامل ہیں جن کے لیے اس کا موٹا پتلا، گورا کالا، لمبا ٹھگنا وغیرہ ہونا کسی طور پر بھی غیر متعلق ہے۔

(سوشل میڈیا)

باڈی شیمنگ کو اردو میں بطور اصطلاح استعمال کرنے سے پہلے میں نے سوچا کہ اس کے اردو مترادفات دیکھوں تاکہ انگریزی کی بجائے اردو لفظ استعمال کر سکوں۔

مگر معلوم ہوا کہ یہ کام اتنا سائنسی بنیادوں پر ہو نہیں سکتا کیونکہ ہمارے ہاں باڈی شیمنگ ایک فن ہے۔ اسے ہر خاص و عام کی خلاقی نے ایک ایسا اظہارِ فن بنا دیا ہے کہ سٹیج ڈراموں میں باقاعدہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کی جسمانی وضع قطع پر پھبتی کسنے کا عمل گھنٹوں جاری رہ سکتا ہے اور حاضرین و ناظرین کی داد پا سکتا ہے۔

چنانچہ یہ واضح کر دوں کہ پاکستان میں کسی کی جسمانی ہیئت اور شکل و صورت کا مذاق اڑا کر اسے ذلیل کرنا ایک قومی روش ہے اور ایسا قابلِ قبول عمل ہے جسے برا خیال نہیں کیا جاتا۔ ہم لوگوں کو ان کی جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر رکھے گئے ناموں اور القاب و عرفیت سے یاد رکھتے اور کرتے ہیں، چنانچہ ساری معاشرت چھان جائیے مجال ہے جو ایک شخص بھی ایسا مل جائے جو دوسرے کی جسمانی خامیوں کو اپنی گفتگو میں اچھالتا نہ ہو۔

یہ رویہ بچے کی پیدایش سے شروع ہو کر اس کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ بچے کے لیے محض انسان کا بچہ ہونا کافی ہے نہ انسان کا بچہ بننے کی کوئی فرمائش یا توقع رکھنے کا کوئی رواج۔

تاہم لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے ساتھ یہ معاملہ زیادہ درپیش ہوتا ہے۔ ہم لڑکی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سلیقہ مند، گھریلو، تابع فرمان، پھرتیلی، مہمان نواز، سگھڑ، سلائی کڑھائی میں طاق، پابندِ صوم و صلوٰۃ، خوش اخلاق، صابر، حوصلہ مند، ملنسار، درد مند، قربانی کے جذبے سے لبریز، مطیع، ہنس مکھ، مودب، اور ہر فن مولا ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت، لمبی، گوری، متناسب اعضا کی مالک، مناسب جسامت کے علاوہ ایسی حسین ہو کہ اس کے خدو خال حسن کے ہر سانچے میں یوں ڈھلیں کہ وہ سب کو حسین لگے۔

لیکن اس حسن کے ساتھ ہی وہ ایسی پردہ دار اور شرم و حیا کا پیکر ہو کہ اپنے مجازی خدا کے سوا کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی روادار نہ ہو۔ لڑکی سے فرمائشوں کی یہ فہرست شیطان کی آنت سے بھی طویل ہے اور اس میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہی ہوتا ہے، کمی نہیں ہوتی۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ لڑکی کی باڈی شیمنگ میں صرف اس کے گھر والے اور قریبی لوگ ہی نہیں گھر والا اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی شامل ہیں جن کے لیے اس کا موٹا پتلا، گورا کالا، لمبا ٹھگنا وغیرہ ہونا کسی طور پر بھی غیر متعلق ہے۔

کلاس فیلو، یونیورسٹی فیلو، گلی محلے دار اور یہاں تک کہ راہگیر بھی۔ وہ لڑکے جن کی معمولی ترین شخصیت اور ہیئت کذائی کی بدولت گلی محلے میں انھیں کھڑے دیکھ کر لڑکی نوٹس تک نہیں لیتی وہ بھی اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔ ’استاد میری ٹائپ کی نہیں ہے یہ، رنگ صاف نہیں ہے اس کا ورنہ تیرے بھائی سے بچ نہیں سکتی تھی!‘

’لڑکی ذات ہے لہٰذا اس میں۔۔۔۔‘ اس جملے سے شروع ہونے والے مکالموں میں غیر ضروری اور بہت حد تک غیر معمولی فرمائشوں کا سلسلۂ جنون اتنا دراز ہوتا ہے کہ اس کے ڈانڈے قیامت سے جا ملتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف لڑکوں سے توقعات کو دیکھا جائے تو ان توقعات کی انتہائی بنیادی نوعیت پر رشک نہیں شک ہونے لگتا ہے۔ پاکستان میں لڑکے کے لیے شکل و صورت، جسامت، قد، وزن، کسی قسم کی کرداری صلاحیت بلکہ پیداواری صلاحیت تک کو اضافی سمجھتے ہوئے بس اتنی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بس لڑکا ہو۔

گویا چند انچ کی گواہی انہیں ہونے اور بہت کچھ ہونے کو کافی ہے۔ یہی چند انچی ثبوت ان کا کُل سرمایہ مانا جاتا ہے اور اس سے زیادہ نہ کچھ ضروری ہے نہ درکار۔ چنانچہ ایسے ایسے لمڈے جو اگر محض اس ثبوت سے محروم ہوتے تو کوئی انہیں اپنی بھینس چَرانے کا حق نہ دیتا، اچھی بھلی لڑکیوں کے شوہر لگے ہوئے ہیں۔

 پورے ملک میں عورتوں کے لیے مرنجاں مرنج قسم کی کاسمیٹک پراڈکٹس ان کی خصوصیات ہی نہیں معاشرے کے تقاضا ہائے بے جا کو پورا کرنے کی ایک ادھوری کوشش بھی ہے۔

رنگ گورا کرنے کی کریمیں، آنکھیں بڑی کرنے والے لائنر، پلکیں لمبی اور گھنی دکھانے والے مسکارے، قد لمبا کرنے کی ادویات، ہونٹ موٹے، ہونٹ باریک دکھانے والی لپ سٹک، ناک ستواں کرنے کا پاؤڈر، جلد کا رنگ یکساں کرنے کے پاؤڈر اور کریمیں، گردن پتلی کرنے والا پٹہ، دوہری ٹھوڑی ختم کرنے کی کریم، نسوانی حسن میں اضافے کی کریمیں، جسم گدرانے کی کریمیں، بال لمبے کرنے کے تیل، بالصفا کریمیں لوشن سپرے اور پٹیاں، دوبارہ سے کنواری ہونے کے نسخے، ناخن بڑھانے کے نسخے، ناخن مضبوط بنانے کے لوشن، بھنوؤں کے بال کم کرنے کا لوشن، بھنویں گھنی کرنے کی کریم، غرض افزائشِ حسن سے متعلق ہر مسئلے اور معاملے کا حل مارکیٹ میں موجود ہے جو بتاتا ہے کہ اس ملک میں عورت کا وجود ہر لحظہ تازہ ہونا ہی شانِ وجود ہے۔

دوسری طرف لڑکوں کے لیے ایسا کوئی آزار نہیں۔ ان کی کل کوالیفیکیشن لڑکا ہونا ہے لہٰذا اس پونجی کی بنا پر وہ شدید ٹٹ پونجیے ہوتے ہوئے بھی دھن وان ہیں۔ انہیں جو کچھ بھی محنت درکار ہے وہ اسی محدود علاقے میں ہے چنانچہ لمبائی، موٹائی ٹائمنگ، پرفارمنس وغیرہ وغیرہ سب کو مردانه کمزوری کی چھتری تلے جمع کرکے طلا اور تیل کی مدد سے خود کو مرد بنانے کا نسخہ ہر شہر، ہر گاؤں میں نوشتہ دیوار ہے۔ چونکہ الله کی ذات ستار العیوب ہے لہٰذا کون جانے کہ اس واحد کوالیفیکیشن پر بھی کون کون پورا اترتا ہے، کون آدھا اور کون پونا۔

عورتوں کی باڈی شیمنگ ہمارے معاشرے کا کلٹ (cult) کیسے بنی؟ اس کے محرک بہت سے عوامل ہیں لیکن دو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلا سرمایہ دارانہ مقاصد کا دلال میڈیا اور دوسرا مذہبی (نام نہاد) علما۔

میڈیا پر موجود تمام تر اشتہارات دیکھ لیجیے، جسمانی خوبصورتی کو نسوانی عظمت اور کامیابی کا معیار بناتے پراڈکٹس کی مشہوری کے لیے کیسے کیسے نادر خیالات لائے جاتے ہیں۔

ان اشتہارات میں عورت کے ظاہری حسن کو معیار بنا کر ایک ایسی مثالی جسامت اور قامت کو لوگوں کے ذہنوں پر سوار کیا جاتا ہے جس سے کم گوارا کرنا گویا ظلم ہوا۔ اچھی نوکری اور روشن مستقبل کے لیے لڑکی کی ذہانت اور محنت کی بجائے رنگت بنیادی شرط قرار پاتی ہے۔ پتلا یعنی سِلم ہونا زندگی کا اولین مقصد ٹھہرتا ہے، بالصفا لوشن زندگی کی جنگ جیتنے کا واحد ہتھیار ہے اور بال لمبے کیے بغیر کسی کو پسند آنا ناممکن سی بات۔ ظلم تو یہ ہے کہ سمارٹ ہونا بھی ذہنی نہیں جسمانی خوبی بن چکی ہے۔

دوسری طرف نام نہاد مذہبی علما کے مطابق عورت کی زندگی کا مرکز محض شوہر کو بستر پر راضی رکھنا اور انٹرٹین کرنا ہے۔ یہ طبقہ جنت میں حوروں سے بھی سوائے جسمانی خوبصورتی اور لذتِ کام سے زیادہ کوئی خدمت انجام دینے کا طلبگار نہیں۔

عوام الناس بلکہ خواص پر بھی ان دو طبقوں کی حکومت ہونے کے سبب عورتوں کے لیے فی الحال دیگر شعبوں میں ان کی شرکت گوارا تو کر لی گئی ہے لیکن بنیادی مقصد یعنی مردانہ لذتِ کام ودہن سے بہر کیف انہیں سبکدوش نہیں کیا گیا چنانچہ ان کی باڈی شیپنگ کے پیشِ نظر باڈی شیمنگ ضروری ہے۔

میں نے عرض کیا کہ باڈی شیمنگ ایک قبیح فعل ہونے کے باوجود ہمارے ہاں ایک فن کا درجہ رکھتا ہے چنانچہ اس فن میں طاق ہونے کی بدولت ہم ان تمام عواقب سے بے نیاز ہو کر اپنے معاشرے کو خود اپنے ہاتھوں برباد کیے جا رہے ہیں۔

ظاہر پرستی کا یہ عمل ہمیں دروں بینی کی مہلت دیتا ہے نہ اجازت۔ جو وقت اور صلاحیت بہتر انسان بننے میں لگ سکتی تھی بدقسمتی سے وہ محض گورا ہونے اور پتلا ہونے کے ساتھ خوبصورت نظر آنے میں صرف ہو رہی ہے۔ شاید سرمایہ دار کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ پراڈکٹ بیچنے کے لیے انسانیت پر سے ایمان ختم کرنا ضروری نہیں، چنانچہ حال ہی میں ایک معروف بناسپتی گھی کے اشتہار میں باڈی شیمنگ خصوصاً لڑکیوں کی باڈی شیمنگ کی مذمت کا بیانیہ متعارف کرایا گیا ہے۔

یہ بارش کا پہلا قطرہ ضرور ہے لیکن اس مَد میں، جتنی ذہن سازی کے پردے میں تخریب ہو چکی ہے اسے ختم کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ