تیزگام حادثہ: ہلاک شدگان کی تدفین جاری

ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان  جمیل احمد  کے مطابق 57 لاشیں ایسی تھیں جن کی شناخت نہیں ہو پائی اور ڈی این ٹیسٹ کیا جائے گا۔

تیز گام ٹرین حادثے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے جنازے  کے دوران ان کے اہل خانہ  غم سے نڈھال (اےا یف پی)

پاکستان میں ضلع  رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے قریب ٹرین میں آگ لگنے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 73 سے زائد افراد میں سے میرپور خاص کے بعض رہائشیوں کی تدفین کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

ہلاک ہونے والے 74 افراد میں سے اکثریت کا تعلق سندھ کے شہر میر پور خاص سے تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں بعض افراد کی کفن میں لپٹی میتیں گذشتہ رات گئے آبائی شہر پہنچیں۔ متاثرہ خاندانوں کے  پریشان حال افراد نے سرکاری عمارت میں رک کر میتوں کا انتظار کیا جو جائے حادثہ سے ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعے وہاں پہنچیں۔

فجر کی نماز کے بعد سو سے زیادہ افراد نے ٹرین حادثے میں مرنے والے کار مکینک محمد سلیم کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ان کی عمر 50 برس کے قریب تھی۔ اس دوران خواتین چھتوں پر کھڑی دکھائی دیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نماز جنازہ بسم اللہ مسجد میں ادا کی گئی جہاں سے کم از کم 42 افراد لاہور میں ہونے والے تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے ایک دن پہلے تیزگام میں سوار ہوئے تھے۔

میرپورخاص کے ڈپٹی کمشنر عطااللہ شاہ نے بتایا ہے کہ ٹرین کی بوگی نمبر 12 میں سوار زیادہ تر افراد کا تعلق میر پور خاص سے تھا۔

انہوں نے کہا :’میرپورخاص کے لوگ اس قدر ہولناک حادثے کا شکار کبھی نہیں ہوئے۔ مرنے والوں میں سے اب تک آٹھ افراد کا تعلق میرپورخاص سے ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ شہر کے 24 افراد حادثے میں زخمی ہوئے جبکہ 40 ابھی تک لاپتہ ہیں۔‘

رحیم یار خان میں حکام کے مطابق جل جانے کی وجہ سے زیادہ تر لاشیں ناقابل شناخت ہو چکی ہیں۔ ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا۔

ڈپٹی کمشنر میر پور خاص نے مزید بتایا ہے کہ حکومت لاپتہ مسافروں کے اہل خانہ کو رحیم یار خان بھیجنے کے انتظامات کر رہی ہے جہاں حادثے میں مرنے والوں کی لاشیں رکھی گئی ہیں۔

مرنے والوں کے سوگ میں جمعے کو میرپورخاص میں کاروبار زندگی معطل رہی۔

بسم اللہ مسجد میں ایک سرکاری سکول کے 57 سالہ ہیڈماسٹر محمد انور  نے اے ایف پی کو بتایا:’ ہم مرنے والوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد میں ان کے بھتیجے اور مجسد کے پیش نماز بھی شامل ہیں۔ جو لوگ مسجد سے روانہ ہوئے وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے یا ان کی رہائش گاہیں قریب قریب تھیں۔

میرپورخاص کے رہائشی یاورحسین اپنے 20 سالہ بھائی محسن کی تلاش میں رات گئے ڈپٹی کمشنر آفس پہنچے۔ انہوں نے ہاتھ میں بھائی کی تصویر اٹھا رکھی تھی جس میں انہوں نے ہلکے بھورے رنگ کی مایہ لگی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جبکہ آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ تھا۔

23 سالہ یاور ٹرین حادثے کا سن کر دوڑتے ہوئے گھر پہنچے۔ انہوں نے کہا بتایا:’میں نے اپنے روتے ہوئے والد،والدہ اور بہنوں کو تسلی دی۔‘

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان  جمیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 57لاشیں ایسی تھیں جن کی شناخت نہیں ہو پائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تھا اِن میں  ٹیسٹ کے لیےسے کچھ کے ڈی این اے نمونے لے لیے گئے ہیں جبکہ کچھ ورثا بھی آئے ہیں مگر لاشوں کی حالت پہچاننے کے قابل نہیں ہے۔

جمیل احمد کا کہنا تھا کہ سب لاشوں کے ڈی این اے کے نمونے تین سے چار دن میں اکٹھے کر کے لاہور میں پنجاب فارنسک سائنس لیب بھیجے جائیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ  40 زخمیوں کی حالت اب ٹھیک ہے اورپنجاب حکومت انہیں ہسپتالوں میں مفت علاج فراہم کر رہی ہے جبکہ مرنے والوں کی میتوں کو گھر پہنچانے کے لیے بھی مفت ایمبولینس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان