آزادی مارچ: آگے کیا ہوگا؟

حزب اختلاف اس بات پر اتفاق کرے کہ عمران خان کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنا امیدوار وزیر اعظم کے لیے نامزد کریں گے اور حزب اختلاف اس کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔

عمران خان، طاہر القادری، خادم حسین رضوی اور مولانا فضل الرحمان تمام دھرنوں میں ان کے قبیلے کے لوگ شامل ہوئے۔ نہ عمران خان کے ساتھ یہ قوم تھی حالانکہ انجینرز کے میڈیا نے بڑی کوشش کی اور نہ مولانا کے دھرنے میں قوم شامل ہے (اے ایف پی)

پوری دنیا میں سیاست میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں فنکاروں نے سیاسی ڈرامے لکھے اور نشر کیے۔ امریکہ میں ’ہاؤس آف کارڈز‘ اور ’ویسٹ ونگ۔‘ ترکی میں ’ارتغرل،‘ ’میرا سلطان‘ اور ’پائے تخت۔‘ روس میں ’کترینا دی گریٹ‘ اور ’لاسٹ زار،‘ کولمبیا میں ’بولیوار،‘ چین میں چن اور ہان خاندانوں کی بادشاہت کے حصول کی جدوجہد پر مبنی ڈرامے ایسی چند مثالیں ہیں۔

اس رجحان سے معاشروں میں دو اثرات پیدا ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگ سیاست کو ہی ڈراما سمجھنے لگے ہیں اور دوسرا یہ کہ سیاست دانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا اور حقیقی فنکار سیاسی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جیسے کہ یوکرین اور امریکہ جہاں ٹی وی سٹار صدر بنے۔ پوری دنیا میں سیاست میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی۔

پاکستان میں فنکار تو سیاسی ڈراما بنانے میں کامیاب نہ ہوئے مگر سیاستدانوں نے دھرنے دے کر حقیقی سیاسی ڈراموں کی روایت ڈال دی۔ پچھلے کئی سالوں سے تقریباً ہر سال کوئی نہ کوئی جماعت اسلام آباد میں دھرنا دے رہی ہے۔ مولانا بھی اس ڈراما بازی میں پیچھے نہ رہے اور آزادی مارچ اپنے مقام پر پہنچ چکا ہے۔ اب دو سوال ہمارے سامنے ہیں۔ ایک یہ کہ مارچ کیسا رہا اور دوسرا یہ کہ آگے کیا ہوگا یا ہونا چاہیے۔

پاکستان میں سیاست قبائلی مزاج کی ہے اور اس میں جمہوری روایات اور باقائدہ فیصلہ سازی کا شدید فقدان ہے۔ اسی لیے جب کوئی سیاسی قبائلی سردار دھرنے کا اعلان کرتا ہے تو اس کے قبیلے کے لوگ چاہے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں قبیلہ کی عزت کی خاطر اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

عمران خان، طاہر القادری، خادم حسین رضوی اور مولانا فضل الرحمان تمام دھرنوں میں ان کے قبیلے کے لوگ شامل ہوئے۔ نہ عمران خان کے ساتھ یہ قوم تھی حالانکہ انجینرز کے میڈیا نے بڑی کوشش کی اور نہ مولانا کے دھرنے میں قوم شامل ہے۔ عمران خان کا دھرنہ ڈرامہ موسیقی، ناچ اور سسپنس سے بھرپور تھا۔ مولانا کا مارچ ذرا پھیکا ہے مگر سسپنس انہوں نے بھی خوب رکھا ہوا ہے۔ لیکن ان سب اور ان کے سہولت کاروں سے یہ قوم تنگ آ چکی ہے اسی لیے اسے ڈرامہ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی۔

جہاں تک ان کے مطالبات کا تعلق ہے۔ پچھلے ایک سال سے میں مسلسل کہہ رہا ہوں کہ عمران خان ایک نااہل وزیر اعظم ہیں اور انہیں ہٹ جانا چاہیے مگر پارلیمان کے ذریعے۔ میں نے پارلیمانی کمیٹی کا مطالبہ کیا تاکہ 2018 کے الیکشن کی انجینرنگ اور دھاندلی کی تحقیقات ہوں۔ اور سب سے پہلے میں نے یہ بات کہی کہ جنرل باجوہ نے فوج کو ایک سیاسی پارٹی بنا دیا ہے جس سے ادارے کو نقصان ہوا ہے۔ میں نے ان کی توسیع کی شدید مخالفت کی۔

مجھے مولانا کے مطالبات سے کوئی اختلاف نہیں ہے مگر انہوں نے راستہ غیر جمہوری اپنایا ہے۔ دھرنے کی تقریروں سے بھی آپ کو اندازہ ہوگا کہ شکوہ یہ ہے کے تیسرے امپائیر نے ان کی حمایت کیوں نہ کی۔ میں نے مارچ سے اختلاف کیا اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کو یہ بھی بتایا کہ میں اس کے خلاف مہم چلاوں گا۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک بڑی تعداد میں تجزیہ نگاروں نے اس سے اتفاق کیا اور اس مارچ کے خلاف اپنے کالموں میں لکھا۔

یہی وجہ ہے کہ قبیلہ بڑی تعداد میں آیا مگر عوام نہیں آئی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا یہ لوگ جو مارچ میں آئے ہیں وہ عوام نہیں ہیں بلکہ یہ کہہ رہا ہوں وہ قبائلی بنیاد پر آئے ہیں۔ مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی مرکزی قیادت کے کئی لوگوں نے میری رائے سے اتفاق کیا مگر انہیں سردار کی وجہ سے دھرنا میں آنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ آج کسی کو یہ شک نہیں ہے کہ موجودہ حکومت فوج کی ہی لائی ہوئی ہے اور خود عمران خان ہر روز لوگوں کو یہ یاد دلاتے ہیں۔ جنرل باجوہ کو اپنے ادارے کی بقا اور سالمیت کے لیے یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ ایکسٹنشن نہیں لیں گے۔ادارہ ہمیشہ کسی ایک شخص کی ذاتی خواہش سے اوپر ہونا چاہیے اور اس میں دوسرے لوگ موجود ہیں جو باگ ڈور سنبھالیں۔

دوسرا یہ کہ الیکشن کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو دوبارہ بنایا جائے اور اس کا سربراہ حزب اختلاف سے ہو۔ یہ واضع ہے کہ  عمران خان میں حکومت کرنے کی صلاحیت بالکل نہیں ہے اس لیے ان کے خلاف پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور انہیں اس بات پر ان کی پارٹی قائل کرے کے وہ ملک اور قوم کے مفاد میں حکومت براہ راست چلانے کی بجائے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے چلائیں۔

حزب اختلاف اس بات پر اتفاق کرے کہ عمران خان کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنا امیدوار وزیر اعظم کے لیے نامزد کریں گے اور حزب اختلاف اس کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ بھی میں نے کچھ تجاویز حزب اختلاف کو بھیجی ہیں اور مجھے امید ہے وہ اس پر ضرور غور کریں گے۔

میں ذاتی طور پر موجودہ سیاستدانوں اور ان کی پارٹیوں سے امید چھوڑ چکا ہوں اس لیے کہ ان میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ انہیں سیاسی ڈراموں میں زیادہ دلچسپی ہے جو مسائل حل کرنے کے بجائے مزید زیادہ پیدا کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ