آج سے 101 سال قبل نومبر 1918 کو جنگ عظیم اول کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس جنگ کے دوران لگ بھگ دو کروڑ انسان ہلاک ہوئے۔
چکوال کے اس پسماندہ گاؤں کے دو نوجوانوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے محاذوں پر انگریز فوج کی ’قیادت‘ کی۔ ایک تو ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’بجنگ آمد‘ میں لکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مشرق وسطیٰ اور برما کے محاذوں پر لڑنے کے بعد وہ واپس گاؤں پہنچے تو ماں جی نے انہیں جی بھر کر دیکھنے کے بعد وہ کچھ کہا، جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے ’بیٹا، اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا؟‘
نوجوان کپتان نے سوچا کہ وہ سچ کس کام کا، جس سے ماں کا دل دُکھے، سو انہوں نے بلا جھجھک جواب دیا، ’جی ہاں، ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں‘ …اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔
کرنل محمد خان سے قبل اسی نگری کے چوہدری نور محمد کو بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈین آرمی کے سپاہی کی حیثیت سے ایران، عراق، مصر اور فرانس کے محاذوں پر دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ لاعلمی کو بھی نعمت کہا گیا ہے۔ وہ سپاہی تھے مگر سادہ لوح دیہاتیوں کو یقین تھا کہ انگریز فوجی دستوں کی قیادت وہی کرتے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ تو فخر سے فرمایا کرتیں ’ہَٹی بھری ہوئی میزاں دی / اگے میرا پُت لڑدا، پِچھے فوج انگریزاں دی‘ ہمارے دادا نور محمد صاحب نے بھی سچ بول کر کسی کا دل دُکھانا مناسب نہیں سمجھا اور اپنی ماں کی دنیا آباد رکھی۔
ایک صدی قبل اپنی فصلیں اور ڈھور ڈنگر خدا کے حوالے کر کے دیارِ غیر میں ’انگریز فوج کی قیادت کرنے‘ کی دادا جی کے پاس دو عدد ٹھوس وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ تاج برطانیہ سے اپنی غیر مشروط وفاداری اور اس کا تحفظ قبلہ کو بہت عزیز تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ انگریز سرکار ان کالونیوں کی رعایا کو زبردستی فوج میں بھرتی کر لیتی تھی۔ فرنگی سرکار دیسی جوانوں کو اٹھا کر لے جاتی اور تاج برطانیہ کے دفاع پر مامور کر دیتی تھی۔ ہر دو وجوہ، خصوصاً دوسری وجہ کی بنا پر بڑے چوہدری صاحب کے پاس اس کارِ خیر سے انکار کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں بہادری کی ایسی درخشاں روایات کافی پختہ ہیں۔ آج اگر کہا جاتا ہے کہ ضلع چکوال کے ہر قبرستان میں کسی فوجی کی قبر موجود ہے تو ایسا بھی دو وجوہ کی بنا پر ممکن ہوا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کے غیور اور پراسرار بندے دفاع وطن کے عظیم جذبے سے سرشار ہیں، جبکہ دوسری وجہ ان کی گزر اوقات کے لیے ناکافی بارانی زمینیں، بے روزگاری اور بھوک ہے جو انہیں مادرِ وطن کی حفاظت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ دس جماعتیں پاس کر کے فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا دفاع وطن کا ٹھرک بھی پوری ہو جاتی ہے اور بال بچوں کا دال دلیہ بھی چلتا رہتا ہے۔
دادا حضور نے لگ بھگ سو سال کی عمر میں اس فانی جہان کو خیر باد کہا۔ وہ بیٹھک کے صحن میں آرام کرسی پر سردیوں کی دھوپ سینکتے اور ہمارے ساتھ جنگ اول عظیم کی یادداشتیں شیئر کرتے ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے۔ ایسے میں وہ سرتاپا گرم چادر میں اپنا وجود چھپا کر اور کسی انجانی دنیا امیں پہنچ کر یہ صوفیانہ کلام گنگناتے تھے ’پردیس نہ ہوندے چنگے، توڑے زری مخمل ہنڈا ئیے / پردیس نہ ہوندے چنگے، توڑے روز نعمتاں کھائیے / فتح شاہ محمدا سمجھا سسی نوں، کدی جھوک وطن تے لائیے۔‘
دادا جان پردیس کے زمانہ جنگ کی راکھ سے چنگاریاں چنتے بتاتے تھے کہ ایران میں ان کے قیام کے دوران جب ایرانی اپنے خوبصورت تاریخی شہر کی بابت صدیوں پرانی کہاوت فخر سے دہراتے ’اصفہان نصفِ جہان‘ ( آدھا جہان اصفہان ہے ) تو انڈین فوجی اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ’گر لاہور نہ با شد‘ (اگر لاہور نہ ہوتا تو) لاہور اور لہوریے تو ہم نے بہت دیکھ رکھے تھے، بابا جا ن کی اس گفتگو سے اصفہان دیکھنے کا ہمارا اشتیاق بھی دو چند ہوتا گیا۔ آ خر ایک دن شوقِ سیاحت کے مارے ہم آوارہ گرد درداں ماری نصرت بھٹو کے شہر بھی جا پہنچے۔ یا حیرت ! کانوں سے سنا اصفہان کا حسن روبرو ہوا تو آنکھوں نے طلسم ہوشربا مناظر کا تماشا کیا۔ شاہ قاجاروں کے پر شکوہ محلات اور مبہوت کر دینے والی ہر تاریخی عمارت کی انفرادیت عقل شکن تھی۔ ہم کتنی ہی دیر اس گنبد کے نیچے کھڑے رفتگان کو آوازیں دیتے رہے، جہاں ایک صدا کی بازگشت سات مرتبہ سنائی دیتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خدا جانے یہ ہمارا تعصب تھا یا حقیقت مگر جب ہم نے اصفہان اور لاہور کے حسن کا موازنہ کیا تو لاہور کا پلڑا بھاری نظر آیا۔ ہر دو شہروں میں فرق یہ ہے کہ ایرانیوں نے اپنے اس ورثے کی صفائی اور تاریخی عمارات کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جبکہ ہم نے لاہور میں گندگی پھیلانے اور تاریخی ورثے کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ شہباز شریف نے صوبے بھر کا بجٹ لاہور کی میٹرو بس، اورنج ٹرین اور انڈر پاسز پر لگا کر اسے لاہور کی بجائے ’پیرس ‘ بنا دیا جبکہ ایرانیوں نے اصفہان کو اصفہان ہی رہنے دیا ہے۔ لاہور کو پیرس بنانے میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ اب عثمان بزدارکی ٹیم اور ڈینگی مچھر نکال رہے ہیں۔ ہم بر پشم قلندر تو اپنی آنے والی نسلوں سے یہ اعزاز بھی چھین رہے ہیں کہ جب کوئی ایرانی اصفہان نصفِ جہان کی بڑھک مارے تو وہ جواب میں وہ یہ نعرہ مستانہ ہی بلند کر سکیں کہ گر لاہور نہ با شد۔ ایرانی تو فخر سے کہتے رہیں گے ’ملیں گے آئندگان کو تبریز اور حلب میں / گئے ہوؤں کی نشانیاں اصفہان سے لیں گے ‘ ا لبتہ ہمارے آئندگان کے لیے ایسی فخریہ نشانیاں نااہلی اور کثیر سرمائے کی مدد سے مٹائی جا رہی ہیں۔
’حسن اتفاق‘ دیکھیے کہ گزشتہ برس 11نومبر کو پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کی صد سالہ تقریبات منانے کے دوران ورلڈ بنک کی ’ اسٹیٹ آف واٹر سپلائی، سینیٹیشن اینڈ پاورٹی ان پاکستان‘ کے نام سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے بنیادی سہولتوں سے محروم 80 فیصد غریب دیہات میں رہتے ہیں۔
گویا ہم ’دیہاتیوں‘ کو پسماندہ رکھنے کا پلان اتنا کامیاب رہا ہے کہ ہم آج بھی وہیں ہیں، جہاں ایک صدی قبل کھڑے تھے۔ سو سال پہلے یہاں کے سادہ لوح دیہاتی برٹش انڈین آرمی کے معمولی سپاہی کو کمانڈر سمجھتے تھے اور آج اس کے ادنیٰ قلم کار پوتے کو بڑا کالم نگار خیال کرتے ہیں۔ کوئی لاعلمی سی لاعلمی ہے۔ آج سے 101 برس قبل دو کروڑ انسانوں کو نگلنے والی پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا تھا مگر کرۂ ارض کے اس بد نصیب خطے میں شعورو آگہی کے ساتھ لاعلمی اور جہالت کی جنگ عظیم ابھی تک جاری ہے۔ تب ہمارے آبا ان پڑھ اور ان گڑھ تھے تو شرح خواندگی آج بھی شرمناک ہے۔
ایک صدی پہلے ولایتی جبر تھا تو آج ہمیں دیسی جبر کا سامنا ہے۔ خدا معلوم یہ سادہ لوح کب تک کٹھ پتلی محمد خانوں، نور محمدوں، ایوب خانوں، ضیا الحقوں، پرویز مشرفوں، عمران خانوں اور فضل الرحمٰنوں کو کمانڈر خیال کرتے رہیں گے اور اس جنگ میں پِستے رہیں گے؟
’ہم کمانڈر ہیں‘ کا جھوٹ بول کرد ھرتی ماں کو دھوکہ تو دیا جا سکتا ہے مگر اس ماں کی حقیقی دنیا تو اس دن آباد ہو گی جب اس کے بیٹوں کو جینوئن کمانڈر میسر آئے گا۔