ایچ آئی وی پازیٹو بچی کو کوئی سکول داخلہ نہیں دیتا

بارہ سالہ جویریہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے لیکن کوئی سکول اسے داخلہ نہیں دیتا کیونکہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہے۔ ایڈز کے عالمی دن پر خصوصی تحریر۔

12 سالہ جویریہ  اب بہتر زندگی گزار رہی ہیں اور  انڈس ہسپتال میں ہی قائم ’انڈس کے ستارے‘ نامی سکول کی طالبہ ہیں۔ (تصویر: شیما صدیقی)

جویریہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے لیکن کوئی سکول اسے داخلہ نہیں دیتا کیونکہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہے۔

’مجھے ایڈز ہے۔ ہاں، مجھے پتہ ہے کہ مجھے ایڈز ہے۔ میری امی کے پاس جب میڈم کا فون آیا تو میں سمجھ گئی تھی کہ مجھے کیا ہوا ہے۔‘ جب 12 سالہ جویریہ نے مضبوط آواز میں بتانا شروع کیا تو میں خود سہم گئی۔

جویریہ سے ہماری ملاقات کراچی کے انڈس ہسپتال میں ہوئی جہاں وہ ڈاکٹر ثمینہ جونیجو کے پاس زیرِ علاج ہیں۔ ہم نے جویریہ کی اس قدر سنجیدہ بات پر ڈاکٹر ثمینہ کی طرف دیکھا، جنھوں نے بچی کی اصلاح کرتے ہوئے کہا: ’نہیں جویریہ، آپ کو ایڈز نہیں، بلکہ آپ کو صرف ’ایچ آئی وی‘ ہے یعنی آپ ایڈز کے وائرس سے متاثر ہیں اور آپ کا علاج کیا جا رہا ہے، آپ جلدی اچھی ہو جائیں گی کیونکہ ایچ آئی وی لاعلاج مرض نہیں۔‘

یکم دسمبر کو ایڈز اور ایچ آئی وی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ایڈز اور اس کے وائرس ایچ آئی وی یعنی (قوت مدافعت میں کمی) کے مرض سے آگہی کے ساتھ ساتھ ان مریضوں کو دوا اور علاج کے دائرے میں لانا ہے۔ یو این ایڈز نے اس سال کی مہم کو ’کمیونٹی میکس دی ڈیفرنس‘ (معاشرہ فرق لاتا ہے) کا نام دیا ہے کیونکہ اس وقت ایڈز اور ایچ آئی وی سے آگاہی اور شعور اجاگر کرنا ہی سب سے بڑا جہاد ہے۔

ایڈز اور ایچ آئی وی پازٹیو میں کیا فرق ہے؟

ایچ آئی وی کا مطلب ہے ’ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس۔‘ اگر کسی مریض کے جسم میں یہ وائرس موجود ہو لیکن مرض کی کوئی علامت نہ ہوں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہے۔ یہ وائرس سالہا سال تک جسم میں بغیر کوئی علامت پیدا کیے رہ سکتا ہے۔ بعض اوقات ایچ آئی وی دس، دس سال تک بے ضرر پڑا رہتا ہے۔

اس سے اگلے مرحلے میں ایچ آئی وی فعال ہو کر جسم کے مدافعتی نظام کو نشانہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔ اس موقعے پر مریض کے اندر مرض کی علامات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مریض کو ایڈز لاحق ہو گیا ہے۔  

پاکستان میں سنگین صورتِ حال

پاکستان میں یو این ایڈز کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت پاکستان میں کُل ایک لاکھ 60 ہزار لوگ ایچ آئی وی سے متاثر ہیں، جن میں 48 ہزار خواتین، ایک لاکھ دس ہزار مرد اور ساڑھے پانچ ہزار بچے ہیں۔

ایڈز کے نتیجے میں اب تک موت کا شکار ہونے والوں کی تعداد 64 ہزار تک جا پہنچی ہے۔ آج بھی صرف 14 فیصد ایچ آئی وی وائرس کے مریض اپنے مرض سے واقف ہیں اور ان میں سے بھی صرف دس فیصد اپنا علاج کرا رہے ہیں۔

بار بار انفیکشن

ڈاکٹر ثمینہ جونیجو انڈس ہسپتال میں بطور پیڈز آئی ٹی کنسلٹنٹ کام کرتی ہیں۔ وہ جویریہ کی کیس ہسٹری کچھ اس طرح بتاتی ہیں کہ 12 سالہ جویریہ تھیلسیمیا کا شکار بچی ہے، جو اس ہسپتال سے علاج کروا رہی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس کی حالت خراب ہونے لگی۔

’اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ اس کا پیٹ پھول چکا تھا۔ اسے مہینے میں دو بار سے زیادہ مرتبہ خون لگانا پڑ رہا تھا اور بار بار انفیکشن ہو رہا تھا، یعنی اس کی قوت مدافعت کمزور پڑ رہی تھی۔ ان علامات کے پپش نظر ہمیں خدشہ تھا کہ اسے ایچ آئی وی ہو سکتا ہے جو اکثر تھیلیسیمیا کے مریضوں کو غیر تصدیق شدہ خون لگانے سے ہو جاتا ہے۔ اس کے ٹیسٹ کرائے گئے تو ہمارے خدشے کی تصدیق ہو گئی۔ ہم نے فوراً جویریہ کے والدین کو بلا کر ان کو اعتماد میں لیا اور اس کا علاج شروع کر دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آٹھ ماہ میں بروقت علاج اور بہتر خوراک کے ذریعے جویریہ پہلے سے بہتر حالت میں ہے۔ اسے روزانہ ایک گولی کھانی ہے اور اس میں ناغہ نہیں کرنا۔ جویریہ اور اس کے والدین نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ وہ گھبرائے نہیں بلکہ انھوں نے نہ صرف اپنی بلند ہمتی دکھائی بلکہ جویریہ کو بھی حوصلہ دیتے رہے۔‘

بچپن نام ہے شرارتوں کا اور خواب بُننے کا۔ بیمار سہی لیکن جویریہ بچی ہی تو ہے۔ بیماری نے اسے کمزور اور نڈھال ضرور کیا ہے لیکن خواب دیکھنے سے نہیں روک سکی۔

اس کا خواب ہے کہ ایک روز وہ بھی ڈاکٹر بنے گی اور اپنے جیسے بیمار بچوں کا علاج کرے گی، لیکن پہلے تھیلیسیمیا اور اب ایچ آئی وی۔ لوگ تو اس سے دور بھاگتے ہی ہیں، کوئی سکول بھی اسے داخلہ دینے کو تیار نہیں تھا۔

ساتھ کھیلنے یا ہاتھ ملانے سے ایڈز نہیں پھیلتا

اس بارے میں ڈاکٹر ثمینہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں ہر سطح پر عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، خاص کر ایڈز اور ایچ آئی وی کے مرض کے بارے میں۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہِیے کہ یہ مرض نہ تو مریض کو ہاتھ لگانے سے پھیلتا ہے، نہ ان کے ساتھ کھانا کھانے سے اور نہ ہی ان کے ساتھ بیٹھنے سے۔

ڈاکٹر ثمینہ نے مزید کہا: ’اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایچ آئی وی اور ایڈز لاعلاج نہیں۔ مریض اور مرض کی شناخت پہلا اور اہم ترین مرحلہ ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ اگر کسی کو یہ مرض ہو گیا تو اب یہ چند گھڑی کا مہمان ہے جبکہ ایسا نہیں۔ یہ وائرس انسانی جسم میں خاموشی سے سالہا سال تک پڑا رہتا ہے۔ مضبوط قوت مدافعت کا مریض زیادہ وقت لے گا اور اگر وہ بروقت علاج کرا لیتا ہے تو وہ ایڈز سے بچ سکتا ہے۔‘

اس مرض کے بارے میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ مرض صرف بے راہ روی کے شکار لوگوں کو لگتا ہے، ایسا ہرگز نہیں۔ یہ مرض جویریہ کی طرح کسی کو بھی آلودہ سرنج، آلودہ خون یا آلودہ آلات کے استعمال سے لگ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر کوئی ماں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہے تو اس کے بچے کو پیدائش کے وقت یہ مرض لگ سکتا ہے۔

سب سے متاثرہ طبقے

یو این ایڈز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایڈز اور ایچ آئی وی چار طبقوں میں سب سے تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پہلے نمبر پر ایک ہی سرنج سے نشہ کرنے والے، دوسرے نمبر پر ٹرانس جینڈر، تیسرے نمبر پر خواتین سیکس ورکر اور چوتھا بڑا طبقہ ہم جنس پرست ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ نشے کے عادی افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مرض کے بارے میں جانتے نہیں اور ایک ہی سرنج سے گروپ میں بیٹھے افراد نشہ کرتے ہیں جس سے یہ مرض دیگر لوگوں کوبھی لگ جاتا ہے، لہٰذا احتیاط اور بر وقت علاج سے ہی مریض بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔

اس کا واضح ثبوت رواں سال مارچ میں رتو ڈیرو میں وبائی مرض کی شکل میں پھوٹ پڑنے والے ایچ آئی وی کے مریض ہیں، جس کا سب سے زیادہ شکار معصوم بچے تھے۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی پروگرام مینیجر ڈاکٹر سکندر علی میمن کے مطابق اب تک رتو ڈیرو میں 1179 ایچ آئی وی کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے، جن میں سے 939 بچے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ان مریضوں کو لازمی علاج کے دائرے میں لانا ہے۔

مفت دوا، مفت علاج

ڈاکٹر ثمینہ کہتی ہیں کہ ’بہتر خوراک اور بروقت دوا کے ذریعے ہم ایچ آئی وی وائرس کو اتنا دبا سکتے ہیں کہ اس کا مریض بھی صحت مند آدمی کی زندگی گزار سکتا ہے۔ وہ کھیل کود میں حصہ لے سکتا ہے، شادی کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے بھی پیدا کر سکتا ہے۔ یعنی وہ ایک نارمل زندگی جی سکتا ہے، لہٰذا اس مرض اور نہ ہی مریض سے ڈریں بلکہ آگاہی دیں۔‘

اور اب اس کا علاج بھی کوئی مشکل نہیں۔ حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ انڈس اور آغا خان ہسپتال میں بھی ان کے مراکز بنا دیے ہیں جہاں پر مفت دوا اور علاج دستیاب ہے۔

جویریہ بھی اب بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ اب انڈس ہسپتال میں ہی قائم ’انڈس کے ستارے‘ نامی سکول کی طالبہ ہیں۔ یہاں دیگر مرض بچوں کے ساتھ ابتدائی تعلیم دی جا رہی ہے۔ جویریہ نے بتایا کہ انہیں یہاں آ کر بہت اچھا لگا۔ انہیں ڈرائنگ کرنا سب سے اچھا لگتا ہے۔

جویریہ کی ٹیچر کنیز کہتی ہیں وہ جب ان کے پاس آئی تو کافی پریشان تھیں، زیادہ بات نہیں کرتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ بچوں میں گھل مل گئیں۔ جویریہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پُرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں پڑھوں گی اور ڈاکٹر بن کر غریبوں کا علاج کروں گی۔‘

ایسے مریضوں کی صحت یابی میں سب سے اہم کردار ان کے خاندان کا ہوتا ہے۔ ان مریضوں کی سوشل لائف بالکل ختم ہوجاتی ہے، لہذا انہیں معاشرے سے کاٹ دینا درست عمل نہیں۔ ہم لوگ بیماریوں سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں مرض اور مریض سے خوف زدہ ہونے کی بجائے علاج کے بارے میں آگاہی دینا چاہیے کیونکہ درست علم ہی ان کا پہلا علاج ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت