پون صدی کی ٹریجڈی فلم، جو ایک ہفتے میں چل گئی

جرگوں اور پنچائتوں میں بچوں بچیوں کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، یہ حد ہے۔ اور بے حد یہ ہے کہ ہم بہت مہذب ہوکر بھی جرگوں اور پنچائتوں میں ہونے والے فیصلوں سے کہیں نہ کہیں متفق رہتے ہیں۔

(پکسابے)

اس ہفتے کی کچھ خبریں سن لیجیے۔

سندھ کے علاقے دادو میں گُل سما نامی لڑکی کو غیرت کے نام پر سنگسار کردیاگیا۔ لڑکی کی عمر نو سال تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ بچی کی گردن، کندھے، چہرہ اور سینہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سکھر کے گاوں سلطان پور میں ہونے والے جرگے میں ایک لڑکے اور لڑکی کو باہم ناجائز تعلقات رکھنے پر کاروکاری کی سزا سنادی گئی ہے۔ فیصلے کے تحت لڑکے کے والدین تقریبا آٹھ لاکھ روپے ادا کریں گے اور لڑکی کو بطور سزا ایک مرد سے شادی کرنی ہوگی۔ ناجائز تعلقات رکھنے والے لڑکے کی عمر آٹھ سال اور لڑکی کی عمر چھ برس ہے اور جس شخص سے یہ لڑکی ازراہِ سزا بیاہی جائے گی اس کی عمر پینتس سے چالیس سال ہے۔ بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان لوٹنے والی ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ دعا منگی کو کراچی کے علاقے کلفٹن سے اغوا کرلیا گیا ہے۔ اب تک کی رپورٹوں کے مطابق سیکیورٹی ادارے دعا کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں۔ لاہور میں بیوی سے لڑائی ہونے پر شوہر نے نو ماہ کی بیٹی کو چھت سے پھینک کر مارڈالا ہے۔ یہ خبر ابھی خبروں میں اپنا مقام نہیں پا سکی ہے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح عورت ابھی اپنا مقام نہیں پاسکی ہے۔ پشاوراور چارسدہ میں کچھ لوگ احتجاج کررہے ہیں کہ باچا خان یونیورسٹی کا وائس چانسلر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو کیوں لگا دیا گیا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ سکینڈل کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ابھی تو اس کے سربراہ کا فیصلہ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ 29 مارچ کو ملک بھر میں ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ پر ایوانِ اختیار اور بندگان ِ تہذیبِ مشرق نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔  

کچھ مزید خبریں سن لیجیے۔

احمد مصطفی کانجو کو رواں سال کے بالکل آغاز پر رحیم یار خان سے حراست میں لیا گیا تھا۔ آج سال کے بالکل اختتام پر احمد مصطفی کانجو کی والدہ کے ہاتھ سے زندگی کی ڈور چھوٹ گئی۔ نقیب اللہ محسود کو دو برس قبل کراچی کے ایک جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔ ٹھیک اُسی دن، جب احمد مصطفی کی والدہ گزریں، نقیب اللہ محسود کے والد بھی انتقال کرگئے۔ آج سے ڈھائی برس قبل عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کو ایک ہجوم نے بنامِ خدا قتل کردیا تھا۔ ٹھیک اُسی دن، جب احمد مصطفی کانجو کی والدہ اور نقیب محسود کے والد نے مفارقت کا داغ دیا، مشال خان کے والد پر لاہور میں ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دعا منگی اغوا کرلی گئی، یہ ستم ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کچھ اچھے بھلے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک لڑکی دعا جیسے کپڑے پہن کر گھر سے نکلتی ہے تو اس کو اغوا کرنا لوگوں کی بنیادی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ان لوگوں کی رائے میں سوال نہیں ہونا چاہیے کہ دعاؤں کو اغوا کیوں کرلیا جاتا ہے۔ ان کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ دعائیں اتنی پرکشش ہوتی ہی کیوں ہیں کہ بیچارے معصوم لوگ انہیں اغوا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ احمد مصطفی لاپتہ کردیے گئے، یہ قیامت ہے۔ قیامت در قیامت یہ ہے کہ سنجیدہ اور ذہین لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی کچھ کرتا ہے تو ہی اٹھایا جاتا ہے ورنہ مجھے یا تجھے کیوں نہیں اٹھا لیا جاتا۔ یعنی کسی ایک کا نہ اٹھایا جانا کسی دوسرے کے اٹھا دیے جانے کا ایک مناسب جواز ہے۔ اگر کسی کے نصیب میں شہر کی کوتوالی آگئی ہے تو اس کا حق ہم نے یہ مان لیا ہے کہ جس شہری کے نام وہ جب چاہے جیسے چاہے لاہوت ولامکان کی فلائٹ بُک کرا دے۔

جرگوں اور پنچائتوں میں بچوں بچیوں کو سزائیں سنائی جارہی ہیں، یہ حد ہے۔ اور بے حد یہ ہے کہ ہم بہت مہذب ہوکر بھی جرگوں اور پنچائتوں میں ہونے والے فیصلوں سے کہیں نہ کہیں متفق رہتے ہیں۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے یہ علاقائی سطح کی کچھ مکروہ روایتیں ہیں۔ مگر جو کچھ ہم نصاب میں پڑھ رہے ہیں، جو ہمیں کتاب کے بیچ سے بتایا جاتا ہے، جو ہم تک تاریخ کے راستے سے پہنچ رہا ہے کیا وہ ان روایتوں سے کچھ مختلف ہے جو جرگوں اور پنچائتوں کے فیصلوں میں سننے کو مل رہا ہے؟ یہ سب کچھ ہماری گھٹی میں رکھا ہے اس لیے قانون سازی کے باوجود حساسیت کی سطح بلند نہیں ہوکر نہیں دیتی۔ قیامت خیز جبر کی خبریں سن کر بھی کچھ ایسا رسمی سا اظہارِ افسوس ہم کردیتے ہیں جیسے کسی دور پار کا کوئی رشتے دار ٹائیفائیڈ کا شکار ہوگیا ہو۔   

یہ ٹھیک ہے کہ مشال خان کے قتل پر کچھ آنکھیں فرطِ جذبات میں بے طرح چھلک گئی تھیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ ثبوت وشواہد کے انبار کے باوجود قانون نے اقبال لالہ کے صبر کا لحاظ نہیں کیا۔ ایک ایک کرکے مشال خان کے سارے قاتل یہ کہہ کر رہا کردیے گئے کہ جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ مگر رہا ہونے والوں نے رشکئی انٹرچینج پر کھلے آسمان تلے گفتگو کرتے ہوئے قتل کا اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آئیندہ بھی کوئی مشال پیدا ہوا تو اس کے ساتھ بھی ہماری طرف سے کچھ مختلف سلوک نہیں ہوگا۔ نقیب اللہ محسود کی لاش دیکھ کر لوگ ضرور دل گرفتہ ہوگئے تھے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ انصاف نقیب اللہ کے بیمار والد کی کسی امید کا پاس نہیں رکھا۔ اقبال لالہ کی طرح انہوں نے بھی عدالت کے دروازے پر سنگ وخشت مقید اور سگ آزاد دیکھے، مگر تکلیف دہ بات ایک اور ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ قوم کا اجتماعی ضمیر بھی مظلوموں اور مقتولوں کا ساتھ دینے سے گریزاں رہا۔

رواں ہفتے کی دو خبریں رہ گئی تھیں، وہ سن لیجیے!

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے شکیل خان، جو ملا فضل اللہ کے تعلق دار تھے، اور آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والوں کی سہولت کار تھے، پشاورکی انسدادِ دہشتگردی عدالت نے انہیں رہا کردیا۔ اسی ہفتے کی دوسری خبر یہ ہے کہ سیالکوٹ کی پروین نامی خاتون نے سات سال بعد رہا ہونے والے اپنے بیٹے کے قاتل نعمان کوڈو کو اس کے گھر کے دروازے پر قتل کردیا۔ نعمان کو قتل کرنے کے بعد پروین بی بی نے اطمینان کاسانس لیا، ہنسی خوشی تھانے گئیں اور قانون کے آگے تسلیم ہوگئیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ