راولپنڈی ٹیسٹ تاریخی لمحہ نہ بن سکا

برسوں سے سونے پڑے پاکستانی میدانوں کو سری لنکا کا دلیرانہ فیصلہ بھی بورڈ حکام کی نااہلی کے باعث آباد نہ کر سکا۔

تاریخی طور پر  راولپنڈی میں اس مہینے کھیلے گئے  میچ نامکمل رہے یا پھر سرے سے ہو ہی نہ سکے(اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار کی عدم دلچسپی اور زمینی حقائق سے لاعلمی نے پاکستان کرکٹ کا ایک تاریخی لمحہ ضائع کردیا۔ 

برسوں سے سونے پڑے پاکستانی میدانوں کو سری لنکا کا دلیرانہ فیصلہ بھی بورڈ حکام کی نااہلی کے باعث آباد نہ کر سکا۔  

جب سری لنکا کے موجودہ دورے کے پہلے ٹیسٹ کے لیے راولپنڈی کا نام فائنل کیا گیا تو ہر ایک کو حیرت ہوئی کیونکہ دسمبر کے وسط میں راولپنڈی کا موسم سرد اور بارشوں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ 

ماضی میں بھی جب راولپنڈی میں دسمبر میں میچ کھیلے گئے تو وہ نامکمل رہے یا پھر سرے سے ہو ہی نہ سکے کیونکہ سائبیریا سے آنے والی ہوائیں جب ہمالیہ سے گزرتی ہوئی آتی ہیں تو بارش برسانے والے بادل ساتھ لاتی ہیں۔

پی سی بی راولپنڈی میں ٹیسٹ میچ کرانے کے دفاع میں سکیورٹی وجوہات اور دوسرے ٹیسٹ سینٹرز کی عدم دستیابی کا رونا روتا ہے۔

بورڈ کے بقول لاہور ان دنوں سموگ اور دھند کا شکار ہے جبکہ ملتان اور فیصل آباد میں سہولیات میسر نہیں۔ اسی طرح کراچی میں ایک ٹیسٹ شیڈول ہے جو اگلے ہفتے کھیلا جائے گا۔

بورڈ کے طفلانہ دلائل وقتی طور پر اس کا دفاع تو کرسکتے ہیں لیکن اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود محض ایک دو ٹیسٹ گراؤنڈز کی دستیابی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بورڈ جو کئی برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا راگ الاپ رہا تھا وہ سراب میں پانی کا شورتھا۔ اگر اس راگ میں خلوص ہوتا تو بورڈ پوری تیاری کرتا۔

کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ اور پانچ سال تک بورڈ کے تخت پر جلوہ افروز رہنے والے نجم سیٹھی نے بھی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ انہوں نے کیا سوچا تھا کہ اگر کل ٹیسٹ کرکٹ کرانی پڑی تو کیا ایوان صدر میں کرائیں گے؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حقیقت تو یہ ہے کہ بورڈ حکام کے لیے امارات میں ہوم کرکٹ کرانا کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں تھا جہاں غول کے غول عہدے دار لگژری ہوٹلوں میں مہینوں مال مفت پر مزے لوٹتے رہتے تھے اور جب واپس آتے تو لاکھوں کے حساب سے ان کو سفری الاؤنس سے نوازا جاتا۔ انہی عیاشیوں نے بورڈ کی آمدنی کو باوا جان کا مال سمجھ کر لٹایا۔ 

ملک کے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے کرکٹر تھرڈ کلاس گراؤنڈز میں اپنی قسمت کے چراغ ڈھونڈتے رہے۔ اگر یہ گراؤنڈز اس قابل ہوتے کہ یہاں مناسب کرکٹ سہولیات ہوں تو آج راولپنڈی کا طوق گلے میں نہ ہوتا اور پھر راولپنڈی گراؤنڈ شائد چل جاتا اگر اس میں پانی کی نکاسی کا بھی کوئی انتظام ہوتا لیکن صحیح انتظام نہ ہونے کے باعث اس میں اور کچھ فاصلے پر بہنے والے دریائے سندھ میں کوئی فرق نہ رہا۔ 

بورڈ کی چشم پوشی اور نااہلی نے نہ صرف اچھے بھلے انٹرنیشنل سینٹرز فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد، پشاور اور سیالکوٹ کو تباہ کیا بلکہ ستم بالائے ستم حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے غیر روایتی مقامات لاڑکانہ اور ڈیرہ مراد جمالی میں ناقص تعمیرات کرکے بورڈ کا پیسہ ضائع کیا گیا۔

ان سینٹرز پر اربوں روپے لگا کر وہ شکستہ حال گراؤنڈ بنائے گئے کہ آج مقامی کھلاڑی بھی وہاں کھیلنے کو تیار نہیں۔ 

پاکستان اوردوسرے ایشیائی ممالک کے علاوہ ہر ملک میں کرکٹ بورڈ کو ایک کارپوریشن کے طرح چلایا جاتا ہے جہاں اس بات کا ادراک ہے کہ کرکٹ اب ایک کھیل نہیں بلکہ انڈسٹری ہے اور اس میں نفع نقصان کا توازن اور احتساب کا عمل رکھا جاتا ہے۔

منصوبہ بندی کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور آمدنی کے ذرائع اور اس کے اعداد وشمار شفاف رکھے جاتے ہیں جبکہ کرکٹ گراؤنڈز مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی ذمہ داری ہوتی ہے اور آمدنی میں ان کا بڑا حصہ رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی دلچسپی بھی رہے اور گراؤنڈز بھی بہتر سے بہتر ہوں۔

پاکستان میں اس کے برعکس بورڈ کے انتظام میں حکومت دخل دراندازی کرتی ہے اور آمدنی کا بڑا حصہ بورڈ اپنے اخراجات اور اللوں تللوں پر لگادیتا ہے۔

گراؤنڈز کا اختیار اپنے پاس رکھتا ہے لیکن ان کی تعمیر وترقی پر نظر نہیں رکھتا۔ نتیجے میں کرپشن، گھپلے اور نااہلی ان کا حال ایسا ہی کردیتی ہے جیسے آج ملتان اور فیصل آباد کے گراؤنڈز کا ہے۔ 

پی سی بی نے جس طرح 10 سال کے بعد ایک تاریخی لمحے کو اذیت اور فرسٹریشن میں تبدیل کیا، اس پرانتظامیہ کو ایک نااہلی کا نوبیل پرائز بھی دینا چاہیے اور پی سی بی انتظامیہ اس کی سب سے بڑی حق دار ہے۔

بورڈ کو پی ایس ایل کے میچ پاکستان میں کرانے کا چیلنج درپیش ہے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل امر ہے لیکن بہتر پلاننگ اور وقت سے پہلے اس کی عملی ریہرسل ہی اس کے کامیاب انعقاد کی ضمانت ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ بورڈ کے ارباب اختیار سخت رویہ اختیار کریں اور اپنے ملازمین کی فوج کو آپریشنل کریں ورنہ آئندہ پی ایس ایل کہیں آخری ثابت نہ ہو۔

راولپنڈی ٹیسٹ کے چار دنوں کے بارش کے ہاتھوں برباد ہونے سے بورڈ کو کتنا مالی نقصان ہوا یہ تو بورڈ کو پتہ ہوگا لیکن کرکٹ صحافیوں کو بہت ہوا ہے جو تاریخی لمحے کی روداد نشر اور رقم کرنے کے لیے طویل سفر کرکے سٹیڈیم پہنچے مگر ان کے حصے میں بس پانی کی روانی اور گراؤنڈ کی زبوں حالی ہی آسکی۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ