’ایک ٹانگ پر پرچم لہراتا دیکھ کر دشمن ڈر جاتا ہے‘

ناصر محمود گذشتہ پانچ سال سے واہگہ بارڈر پر پریڈ کے دوران ایک ہاتھ میں سبز پرچم، دوسرے میں بیساکھی تھامے، ایک ٹانگ پر رقص کرکے عوام کا جوش و جذبہ بڑھا رہے ہیں۔

کافی عرصے کے بعد واہگہ بارڈر جانا ہوا کیونکہ پردیس سے آئے ہوئے کچھ مہمان واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہاں پہنچے تو پریڈ شروع ہونے والی تھی۔ چونکہ پروٹوکول میں تھے، اس لیے بیٹھنے کے لیے نشست بھی قدرے آگے کو ملی۔ پریڈ شروع ہوئی تو فوراً سے کیمرہ نکال کر ویڈیو بنانی شروع کی۔

کیمرے کی سکرین پر اچانک ایک شخص نے میری آنکھ اور کیمرے کے لینز کو منجمد کر دیا اور اونچے لمبے گبرو جوان سپاہیوں کی پریڈ سے توجہ ہٹ کر اس شخص پر مرکوز ہوگئی۔ یہ شخص بھی پریڈ گراؤنڈ میں تھا اور نعروں، قومی نغموں اور سپاہیوں کی دل گرما دینے والی للکار پر اپنے پورے جوش و جذبے سے ایک ہاتھ میں سبز پرچم، دوسرے میں بیساکھی تھامے، ایک ٹانگ پر کھڑا کبھی سیلوٹ کرتا اور کبھی بیساکھی پھینک کر ایک ٹانگ پر یوں گھومنے لگتا جیسے تیزی سے کوئی چرخہ چل رہا ہو۔

میرے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں کی توجہ اس شخص کی جانب مبذول ہو گئی، جن کے چہرے پر بے انتہا سنجیدگی اور ایک عجیب سا جذبہ تھا، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور سے تقریباً 27 کلومیٹر جب کہ بھارتی شہر امرتسر سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع واہگہ بارڈر پر ہر روز، بلاناغہ سردیوں میں شام سوا چار جبکہ گرمیوں میں سوا پانچ بجے پرچم اتارنے کی تقریب ہوتی ہے جسے کوئی بھی شخص بغیر ٹکٹ کے دیکھنے جاسکتا ہے۔ بارڈر پر  لگے بڑے سے گیٹ کے دونوں اطراف سپاہی پرچم اتارنے سے قبل اپنی اپنی طاقت، جوش وجذبے اور ایک دوسرے کو اشاروں اشاروں میں للکارنے کی مشق کرتے ہیں۔ اس دوران دونوں ممالک اپنے اپنے ملی نغمے بجاتے ہیں جب کہ پریڈ کے ساتھ ڈھول کی تھاپ عوام کے جوش و خروش کو اور بھی بڑھاوا دیتی ہے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے فضا میں گونج اٹھتے ہیں۔

اس دوران سپاہیوں کے علاوہ دو چار ایسے لوگ بھی پریڈ کے میدان میں نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں پرچم ہوتا ہے اور وہ بابِ آزادی سے بارڈر کے گیٹ تک پرچم لہراتے ہوئے کبھی بھاگتے ہیں، کبھی چلتے ہیں، کبھی گھومتے ہیں اور کبھی وہاں بیٹھے عوام کو مزید جوش و جذبے سے نعرے لگانے کے لیے اکساتے ہیں۔ ناصر محمود بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں۔

پریڈ کے بعد جب ہم ناصر سے ملے تو ان کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم تھا جو ان کے ساتھ ایک سیلفی بنوانے کے انتظار میں تھے۔ بالآخر ہمیں بھی ان سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔

30  سالہ ناصر محمود واہگہ سے کچھ دور واقع ایک گاؤں کے رہائشی ہیں اور گذشتہ پانچ برس سے روزانہ یہاں پریڈ کرنے آتے ہیں۔ ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دس برس قبل ایک حادثے میں ان کی ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ وہ پارکس اینڈ ہورٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) لاہور میں بحیثیت مالی کام کرتے تھے۔ گذشتہ پانچ برس سے وہ یہاں آرہے تھے اور پریڈ کے دوران ان کا جذبہ دیکھتے ہوئے یہاں بڑے افسران اور ڈی جی رینجرز نے انہیں پریڈ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔

ناصر نے بتایا کہ پاک فوج کے افسران ان کے علاج معالجے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پریڈ میں شامل ہونے کی کوئی تنخواہ نہیں ملتی، لیکن پریڈ دیکھنے کے لیے آنے والے اگر انہیں خوشی سے کچھ پیسے دے دیں تو وہ خدا کا شکر ادا کرکے لے لیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ یہ سب کچھ ملک کی محبت میں کرتے ہیں اور ان کے خیال میں ہمسایہ ملک کی فوج ان کے جذبے سے خوف کھاتی ہیں۔

ناصر کی شادی پانچ برس قبل ہوئی اور وہ ایک بچی کے والد بھی ہیں۔ ناصر کا کہنا ہے کہ ’میں بہت تیزی سے پرچم لہراتا ہوں، لیکن مجھے چکر نہیں آتے، جب میں پریڈ کے دوران پرچم لہرا رہا ہوتا ہوں تو اللہ مجھے ہمت دے دیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا