’کوئی صحافی کتاب یا پمفلٹ رکھنے پر جیل نہیں جانا چاہیے‘

سی پی جے کے پروگرام کوآرڈینیٹر سٹیون بٹلر نے یہ بیان صحافی نصر اللہ چوہدری پر عائد الزامات اور انہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے بعد دیا۔ پولیس دعوے کے مطابق ان کے پاس سے کتاب ’پنجابی طالبان‘ ہمراہ ممنوع لٹریچر برآمد ہوئی تھی۔

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 26 دسمبر 2019 کو صحافی نصر اللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں 5 سال قید، 10 ہزار جرمانہ جب کہ عدم ادائیگی پر مزید ایک ماہ سزا کا حکم دیا تھا۔

کراچی کے سینئیر صحافی کو ممنوعہ لٹریچر کے ذریعے نفرت پھیلانے اور دہشت گرد تنظیم کی سہولت کاری کے الزام میں انسداد دہشت گردی کی عدالت جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف سندھ کورٹ میں کی گئی اپیل کی سماعت کے دوران بدھ کی صبح عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 جنوری کو عدالت میں جواب جمع کرانے کے احکامات جاری کردئیے۔

صحافی نصر اللہ چوہدری کے وکیل محمد فاروق ایڈوکیٹ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے دی گئی سزا بنیادی قانون کے اصول کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'نصر اللہ چوہدری کو غیر قانونی حراست میں رکھ کر 3 دن بعد گرفتاری ظاہر کی گئی، ان کے خلاف ممنوعہ لڑیچر رکھنے کے کوئی شواہد پیش نہیں کئے گئے، شواہد تو درکنار ایف آئی آر ہی قانون کے برخلاف اور غیر قانونی ہے۔‘

واضح رہے کہ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 26 دسمبر 2019 کو صحافی نصر اللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں 5 سال قید، 10 ہزار جرمانہ جب کہ عدم ادائیگی پر مزید ایک ماہ سزا کا حکم دیا تھا۔ جب کہ عدالت نے انہیں مبینہ طور پر کالعدم تنظیم سے رابطہ کرنے پر 6 ماہ قید، 5 ہزار جرمانہ اور عدم ادائیگی پر 15 روز مزید سزا کا حکم سنایا تھا۔

مقامی اردو اخبار روزنامہ ’نئی بات‘ سے منسلک صحافی اور کراچی پریس کلب کے رکن نصراللہ چوہدری کو نومبر 2018 کو کراچی کے علاقے سولجر بازار سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے پولیس نے دعوی کیا تھا کہ ان کے قبضے سے ’نوائے افغان جہاد‘ میگزین کی کاپیاں، ’راہ جہاد‘ اور ’پنجابی طالبان‘ نام کی کتابوں کے ساتھ دیگر کتابیں برآمد ہوئی تھیں جو دہشت گردی کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس نے ان پر الزام عائد کرتے ہوئے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ وہ کالعدم تنظیم القاعدہ کے دہشت گرد خالد مکاشی سے رابطے میں تھے اور ان کے لیے سہولت کاری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

 صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے بدھ کی رات جاری کردہ ایک بیان میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی نصراللہ کے خلاف مقدمے کو خارج کرکے انھیں رہا کیا جائے۔

بیان میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ایشیا پروگرام کے کوآرڈینٹر سٹیون بٹلر نے کہا ’نصراللہ چودھری پر عائد الزامات نامعقول ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزام بے معنی ہیں جس میں انصاف کے تقاضے پوری نہیں کیے گئے۔ ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور کوئی بھی صحافی کتاب یا پمفلٹ رکھنے کے الزام میں جیل نہیں جانا چاہیئے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور) اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس (دستور) نے مشترکہ اعلامیہ میں سینئیر صحافی کو سنائی گئی سزا کی مذمت کرتے ہوئےاسے دنیا کی انوکھی سزا قرار دیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’یہ عجیب کیس ہے۔ اگر ممنوعہ لٹریچر کا کیس بنتا ہے تو وہ اس لٹریچر کو چھاپنے والے پبلشر اور پرنٹر پر بنتا ہے، پڑھنے والے پر کیس کیسے داخل کیا گیا؟ وہ بھی ایک پُرانا کیس۔ صحافیوں کا کام ہے کہ وہ اپ ڈیٹ رہنے کے لیے کتابیں اور لٹریچر پڑھتے ہیں۔‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر جی ایم جمالی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے صحافی نصراللہ پر درج مقدمے اور سزا کو آزادی صحافت اور اظہار کی آزادی پر قدغن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی لٹریچر پڑھنا جرم نہیں ہے۔

’ہم چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کا ازسر نو جائزہ لے کر صحافی نصراللہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔‘

2019 کے دوران کراچی سمیت سندھ بھر کے مختلف پریس کلبز سے منسلک متعدد صحافیوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت سنگین دفعات بشمول بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ 

سکھر کے صحافی امداد پھلپٹو کے مطابق پچھلے چند ماہ میں 14 سے زائد صحافیوں پر چھ کیس درج ہوچکے ہیں۔ جن میں سے کچھ مقدموں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ بھی لگایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان