عراقی پارلیمان نے امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کر دیا

خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کو دوبارہ متحرک ہونے سے روکنے کے لیے تقریبا پانچ ہزار دو سو امریکی فوجی عراق میں مختلف اڈوں پر موجود ہیں۔ یہ فوجی 2014 میں عراقی حکومت کی دعوت پر بلائے گئے عالمی اتحاد کا حصہ ہیں۔

بغداد میں عراقی پارلیمان کے اجلاس کا ایک منظر (روئٹرز)

عراق کی پارلیمان نے اتوار کو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔

 پارلیمنٹ کے سپیکر محمد ہلبسی نے اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹ نے حکومت کی جانب سے داعش کے خلاف لڑائی میں عالمی اتحاد کی مدد کی درخواست واپس لینے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایرانی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی اور اعلی عراقی شخصیت ابو مہدی المہندس کی ہلاکت کے بعد کشیدہ ہوگئے ہیں۔ عراق کی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کیا جبکہ عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمان کے ایک غیرمعمولی اجلاس میں شرکت کی اور ان ہلاکتوں کو ’سیاسی‘ قرار دیا۔ انہوں نے مشکل سے پورے کورم والے اجلاس میں شرکت کی۔

خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کو دوبارہ متحرک ہونے سے روکنے کے لیے تقریبا پانچ ہزار دو سو امریکی فوجی عراق میں مختلف اڈوں پر موجود ہیں۔ یہ فوجی 2014 میں عراقی حکومت کی دعوت پر بلائے گئے عالمی اتحاد کا حصہ ہیں۔

عبد المہدی نے ایک تقریر کے ساتھ سیشن کا آغاز کیا جس میں انہوں نے کہا: ’ہم ایران پر امریکی پابندیوں کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم واشنگٹن سے بھی دشمنی نہیں کرتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے ٹائم ٹیبل طے کرنا پارلیمنٹ کے پاس ایک آپشن ہے۔

ان امریکی الزامات پر کہ ان کی حکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی، عبد المہدی نے اصرار کیا کہ عراقی سکیورٹی فورسز نے سفارت خانے کے خلاف تخریب کاری کو روکا تاہم انہوں نے شکایت کی کہ ’امریکی ڈرون اور ہیلی کاپٹر بغداد کی فضاؤں میں سرکاری اجازت کے بغیر گھوم رہے ہیں۔‘

سپیکر محمد ہلبسی نے کہا کہ ’پارلیمان نے ووٹ کیا ہے کہ عراقی حکومت داعیش کے خلاف عالمی اتحاد کو کی جانے والی اپنی درخواست واپس لے لے۔‘ اس مطالبے کی عراقی کابینہ کو منظوری دینی ہوگی۔

سخت گیر اراکین پارلیمان نے جن کے ایران کے قریب سمجھی جانے والی تنظیم ہاشد الشابی فورس سے تعلقات ہیں تمام غیرملکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔

کسی کرد اور اکثر سنی اراکین نے پارلیمان کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جو امریکی فوجیوں کی موجودگی کے حامی ہیں تاکے ایران کا مقابلہ کرسکیں۔

اجلاس کے دوران امریکی کی قیادت میں عسکری اتحاد نے عراق میں اڈوں پر راکٹ حملوں کے بعد اپنی کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے فوجی مشیر بریگیڈیئرجنرل حسین دیغان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات چیت میں کہا ہے کہ بغداد میں امریکی حملے کا یقینی طور جواب فوجی اور فوجی مقامات کے خلاف ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ امریکہ نے شروع کی اس لیے اس اپنے عمل کا ردعمل قبول کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اس سے پہلے اتوار کو ایرانی وزارت خارجہ کے سپیکر عباس موسوی نے نیوزکانفرنس میں کہا تھا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن وہ کسی بھی صورت حال کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ ملک کی اعلیٰ قیادت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جواب کا ایک ایسا طریقہ وضع کیا جائے گا جس سے دشمن کو جنرل سلیمانی کو مارنے کا افسوس ہو گا اور ایرانی قوم کو جنگ کا بھی سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔

دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ کی ایران کے خلاف فوجی کارروائی عالمی قانون کے مطابق ہو گی۔ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔

اے ایف پی کے مطابق ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران جب مائیک پومپیو سے پوچھا گیا کہ صدر ٹرمپ نے جنگی جرم کی دھمکی کیوں دی؟ تو انہوں نے کہا کہ’ہم نظام کے اندر رہتے ہوئے رویہ اختیار کریں گے۔‘

انٹرویو کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے ممکنہ اہداف کی تفصیل بتانے سے انکار کر دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ امریکہ کے تحفظ سے کبھی گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے ایرانی اہداف کے حوالے سے کہا کہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ کیا منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جس بھی ہدف کو نشانہ بنائیں گے وہ قانونی ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا