ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق تہران کے قریب گر تباہ ہونے والے یوکرینی طیارے کی تحقیقات کے لیے ایران نے طیارہ ساز امریکی کمپنی بوئنگ کو دعوت دی ہے۔
یوکرین کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں اس پر سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایرانی خبررساں ادارے ارنا کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے ایران نے ’یوکرین اور بوئنگ کمپنی دونوں کو دعوت دی ہے کہ وہ حادثے کی تحقیقات میں شامل ہو جائیں۔‘
وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا ہے کہ ان کا ملک ان ممالک کے ماہرین کا بھی خیرمقدم کرے گا جن کے شہری فضائی حادثے میں مارے گئے ہیں۔
اس سے قبل مغربی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ آٹھ جنوری کو ایرانی دارالحکومت تہران سے کیف جانے والی یوکرین کی بین الاقوامی ایئر لائن کی پرواز 752 کو ایرانی میزائل نے نشانہ بنایا تھا، جب کہ ایران اس کی تردید کرتا ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا: ’ایسی اطلاعات ہیں کہ ایرانی حدود میں فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے ذریعے اس پرواز کو گرایا گیا‘ اور ’یہ شاید غیر ارادی طور پر ہوا ہو گا۔‘
بورس جانسن نے مزید کہا: ’ہم کینیڈا اور اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور اب ایک مکمل اور شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس حادثے میں چار برطانوی ہلاک ہوئے۔
تاہم ایرانی شہری ہوابازی کے سربراہ علی عابدزادہ نے سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو جہاز کا ملبہ وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ملتا۔
بورس جانسن کا یہ بیان امریکی حکام اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا کہ شواہد کے مطابق یوکرینی طیارہ ایرانی میزائل لگنے کی وجہ سے گرا۔
ایران کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری لینے سے سختی سے انکار کردیا گیا ہے، تاہم چند میڈیا رپورٹس میں امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس کو پتہ چلا ہے کہ ریڈار آن کیا گیا تھا جبکہ سیٹلائٹ امیجنگ پر متعدد انفراریڈ روشنیوں کے شواہد ملے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرائع کے مطابق یہ اس بات کی نشانی ہے کہ میزائل داغے گئے، جس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا۔ انہی ذرائع نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ایرانیوں نےغلطی سے طیارے کو نشانہ بنایا۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا: ’انٹیلی جنس ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ طیارے کو ایرانی فضا سے فضا میں مار کرنے والے ایک میزائل نے نشانہ بنایا۔ یہ شاید غیر ارادی طور پر ہوا ہوگا۔‘
برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ڈومینک روب نے بھی اپنے کینیڈین ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا کہ برطانوی حکومت ’کینیڈا کے اندازے سے متفق ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ایرانی حکومت کو حادثے کی جگہ تک رسائی دینے سمیت بین الاقوامی برادری کے سامنے کھل کر جانا چاہیے، تاکہ ہم جتنی جلدی ممکن ہو حقائق جان سکیں اور متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو یہ سمجھایا جاسکے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘
ڈومینک نے کہا: ’متاثرین کے اہل خانہ حقیقت جاننے کے مستحق ہیں، چاہے وہ کینیڈین ہوں، برطانوی، یوکرینی، سویڈش، جرمن یا افغان ہوں۔‘
ایران کا موقف کیا ہے؟
ایرانی شہری ہوابازی کے سربراہ علی عابدزادہ نے جمعے کے روز ایک پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ یوکرینی جہاز کو ایرانی میزائل نے گرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا کہ اگر ایسا ہوتا تو جہاز کا ملبہ بڑے علاقے میں پھیلا ہوتا
انہوں نے اس ضمن میں 2014 میں یوکرین میں تباہ ہونے والے ملائشین ایئر لائن کی پرواز ایم ایچ 17 کی مثال دی اور کہا کہ اس کا ملبہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ملا تھا، جب کہ بقول ان کے تہران کے قریب گرنے والے جہاز کا ملبہ نسبتاً چھوٹے علاقے تک محدود تھا۔
علی عابدزادہ نے یہ بھی کہا کہ جہاز کے پائلٹ نے مہرآباد ہوائی اڈے سے رابطہ کیا تھا اور مڑنے کی کوشش کی تھی، اس کے علاوہ پائلٹ نے 27 ہزار فٹ کی بلندی تک جانے کی بھی اجازت طلب کی تھی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ جہاز کا بلیک باکس مل گیا ہے لیکن اسے نقصان پہنچا ہے، اور اسے ٹھیک کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں کہا کہ ایران کو تحقیقات مکمل کرنے میں مہینے بلکہ سال بھی لگ سکتے ہیں۔
روسی میزائل کے ٹکڑے
حادثے کے مقام سے لی جانے والی تصویروں میں روسی ساختہ ٹور میزائل کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایران نے 2007 میں روس سے اسلحے کے ایک بڑے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر ایسے 29 یونٹ لیے تھے۔
جب کہ ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے، جس میں مبینہ طور پر کسی ہوائی جہاز کی طرف فائر کیے جانے والے میزائل کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ایرانی سرگرم کارکن نریمان غریب کو حاصل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روشنی کی اس جھپک سے پہلے ایک میزائل اوپر کی طرف گیا اور اس کے تقریباً 10 سیکنڈ بعد دھماکے کی آواز آتی ہے۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ واقعے کے وقت ہوائی جہاز کیمرے سے تقریباً 3500 میٹر دور تھا۔
ڈیجیٹل تفتیش کار بیلنگ کیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابتدائی طور پر اس ویڈیو کو تہران کے نزدیک واقع مغربی پرند کے ایک ضلع سے میچ کیا ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے تباہ ہونے والے طیارے کی رفتار کا واضح نظارہ ہوسکتا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ یہ حادثہ ایک غلطی ہوسکتا ہے اور انہیں یقین نہیں ہے کہ یہ کوئی تکنیکی مسئلہ تھا۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا: ’مجھے اپنے شکوک و شبہات ہیں۔ میں وہ کہنا نہیں چاہتا۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا: ’یہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ کوئی دوسری طرف سے غلطی کرسکتا ہے، ہمارا سسٹم نہیں۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ طیارہ ایک ’غیر محفوظ علاقے‘ میں پرواز کر رہا تھا ، اور ’بہت ہی خوفناک واقعہ رونما ہوا۔‘
اس سے قبل یوکرین کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے کہا تھا کہ میزائل حملے کو حادثے کی ایک وجہ سمجھا جا رہا ہے۔ جہاز میں سوار تمام 176 افراد، جن میں عملے کے نو افراد بھی شامل تھے، ہلاک ہوگئے تھے۔
یوکرین کی سکیورٹی کونسل کے سکریٹری اولکسی ڈینیلوف نے کہا تھا کہ حکام کسی بھی میزائل کے ملبے یا کسی راکٹ حملے کے شواہد کی تلاش کے لیے ایران کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اسے راکٹ حملے (ممکنہ طور پر ٹور میزائل سسٹم کے استعمال) کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے، کیونکہ حادثے کی جگہ کے قریب میزائل کی باقیات کے بارے میں انٹرنیٹ پر معلومات موجود ہیں۔‘
ایک سابق برطانوی فوجی انٹلی جنس افسر فلپ انگرام نے امریکہ کی جانب سے اپنے نتائج اخذ کرنے میں ممکنہ تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’تصدیق‘ کا اعلان کرنا ’اپنی صلاحیت کو دور کیے بغیر انتہائی درجہ بند معلومات جاری کرنے‘ کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اگر یہ میزائل کسی خاص سائز کا ہوتا تو امریکہ کے پاس سیٹلائٹ نیٹ ورک موجود ہے جو کسی بھی میزائل کے داغے جانے کا پتہ لگا لے گا۔‘
© The Independent