لڑکی کی مبینہ مذہب تبدیلی اور مسلمان لڑکے سے شادی، ہندو سراپا احتجاج

مہک کماری پانچ دن قبل جیکب آباد کے علاقے نمانی سنگت میں واقع اپنے گھر سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی تھیں۔

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد سے ایک نوجوان ہندو لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے اور مذہب تبدیل کرنے کے معاملے پر مقامی ہندو سراپا احتجاج ہیں۔

مہک کماری پانچ دن قبل جیکب آباد کے کوئٹہ روڈ پر واقع نمانی سنگت کے علاقے میں واقع اپنے گھر سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی تھیں۔

ان کے والد وجے کمار نے جیکب آباد کے سول لائن تھانے میں مقدمہ درج کروایا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ نویں جماعت کی طالبہ ان کی 14 سالہ بیٹی کو مبینہ طور پر اغوا کرلیا گیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ ان کی بیٹی کا زبردستی مذہب تبدیل کروا دیا جائے گا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اپنے ویڈیو بیان میں مہک کماری، ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ بیٹھیں دعویٰ کر رہی تھیں کہ انہیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، ان کا اسلامی نام علیزہ ہے اور انہوں نے اپنی مرضی سے علی رضا سولنگی سے شادی کی ہے۔

چار روز تک مہک کا کچھ معلوم نہ ہوسکا، تاہم پیر کی صبح وہ اچانک چند افراد کے ساتھ اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے مقامی عدالت پہنچیں۔

اس موقع پر بڑی تعداد میں مقامی ہندوؤں نے بھی عدالت کے باہر جمع ہوکر احتجاج کیا، جن کا دعویٰ کیا کہ لڑکی نے پیر کو عدالت میں حاضر ہو کر یہ بیان دیا ہے کہ انہیں اپنے والدین کے سپرد کیا جائے، جبکہ مقامی اخبارات نے رپورٹ کیا کہ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے شادی کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیکب آباد کی سماجی تنظیم کمیونٹی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ جان اوڈھانو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عدالت نے لڑکی کے اکیلے آنے اور نوجوان علی رضا سولنگی کو ساتھ  نہ لانے کے باعث ان سے کوئی بیان نہیں لیا اور ہدایت کی کہ وہ منگل کی صبح علی رضا کے ساتھ آکر بیان ریکارڈ کرائیں۔

بعد میں مقامی ہندؤں کی بڑی تعداد نے ڈی سی چوک پر احتجاج کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کو ملانے والے شہر کے بائی پاس پر دھرنا دیا، جس سے ٹریفک معطل ہوگیا۔ یہ دھرنا رات دیر تک جاری رہا۔

دھرنے کے دوران مقامی ہندو رہنما بابو مہیش لاکھانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مہک کماری کو اغوا کرکے مبینہ طور پر زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا ہے اور ان کے احتجاج کے باوجود جیکب آباد پولیس کم عمر لڑکی کو بازیاب نہیں کروا رہی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دستاویز کے مطابق مہک نے ضلع شکارپور کے گاؤں امروٹ شریف میں واقع دیوبند مکتب فکر کی درگاہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد نوجوان علی رضا سے شادی کی ہے۔ 

منگل کی صبح علیزہ (ہندو نام مہک کماری) اور علی رضا کی عدالت میں پیشی سے قبل جیکب آباد پولیس کی جانب سے عدالت کے باہر سخت سکیورٹی نافذ کرتے ہوئے راستوں کو خاردار تاروں سے بلاک کردیا گیا تھا۔

مہک کماری عرف علیزہ اور علی رضا کو ضلع گھوٹکی کے بریلوی مسلک کی درگاہ بھرچونڈی شریف، جس پر ہندو لڑکیوں کے اغوا اور زبردستی مذہب کی تبدیلی کے الزامات لگتے رہے ہیں، کے رہنما عدالت میں لائے۔

اس کیس میں لڑکی نے مبینہ طور پر اسلام تو درگاہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں قبول کیا مگر بعد میں انہیں عدالت میں درگاہ بھرچونڈی شریف کے رہنما لے آئے تاکہ ان کی قانونی مدد کی جاسکے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ جیکب آباد کی عدالت میں 164 کا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مہک کماری عرف علیزہ نے کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے علی رضا سے شادی کی ہے اور ان کے والد نے ان کے شوہر پر اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے، لہذا انہیں ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے اور ان کے شوہر علی رضا کے خلاف درج مقدمہ ختم کیا جائے۔

جس پر عدالت نے انہیں اپنے شوہر علی رضا کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔

لڑکی کے والد وجے کمار کے وکلا نے اعتراض کیا کہ ’لڑکی نابالغ ہے اور یہ شادی غیر قانونی ہے،‘ جس پر عدالت نے کہا کہ ’ان کا کام صرف بیان لینا تھا، یہ معاملہ سیشن عدالت لے جایا جائے۔‘

بعد میں مہک کے والد کے وکلا کی جانب سے سیکنڈ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں لڑکی کی کم عمری کے حوالے سے دائر درخواست کے بعد عدالت نے مہک کماری عرف علیزہ کی عمر کا تعین چانڈکا میڈیکل ہسپتال سے کرائے جانے کا حکم دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جب تک عمر کے تعین کا سرٹیفکیٹ نہیں آجاتا، تب تک انہیں دارالامان لاڑکانہ میں رکھا جائے۔ جس کے پولیس کے سخت پہرے میں مہک عرف علیزہ کو دارالامان لاڑکانہ منتقل کر دیا گیا۔

شمالی سندھ آٹھ اضلاع بشمول سکھر، خیرپور میرس، گھوٹکی، شکارپور، کشمور ایٹ کندھ کوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ پر مشتمل ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 55 لاکھ ہے جبکہ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں 80 لاکھ ہندو آباد ہیں۔ پاکستانی ہندوؤں کی اکثریت سندھ میں آباد ہے اور سندھ میں بھی اکثریت زیریں سندھ کے اضلاع میرپورخاص اور حیدرآباد میں رہتی ہے۔ شمالی سندھ میں ہندوؤں کی کم آبادی کے باوجود مبینہ طور پر نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی مذہب تبدیلی کے واقعات اکثر رونما ہوتے ہیں۔

مقامی ہندوؤں کی جانب سے ایسے واقعات کے بعد کئی ہندو خاندانوں کے بھارت ہجرت کرنے کے دعوے بھی سامنے آتے رہے ہیں، مگر حقیقت میں شمالی سندھ سے ہندوؤں کی بڑی آبادی حالیہ سالوں میں کراچی منتقل ہوئی ہے۔

بلوچستان کی سرحد کے ساتھ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد سے متصل ضلع جیکب آباد، شمالی سندھ میں کاروبار کے لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے جہاں بلوچستان کے نزدیکی اضلاع جھل مگسی، جعفرآباد، نصیر آباد اور سبی کے لوگ بھی روزمرہ کی اشیا کی خریداری کرنے آتے ہیں۔

جیکب آباد کے کاروبار پر مقامی ہندوؤں کا مکمل کنٹرول ہے۔ بقول جان اوڈھانو: ’جیکب آباد شہر کے 90 فیصد کاروبار ہندوؤں کے کنٹرول میں ہیں۔ شہر کی کل دو لاکھ آبادی میں سے 60 ہزار آبادی ہندوؤں کی ہے اور یہاں کریانہ، سبزی، سنار، کپڑے اور دیگر دکانیں مقامی ہندو چلاتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے علاوہ جیکب آباد میں چاول کی ملیں بھی وافر مقدار میں ہیں اور یہاں ڈیڑھ سو چاول ملوں میں ایک سو سے زائد کے مالکان ہندو ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان