’مسیحیت پرامن مذہب نہیں‘: مذہب تبدیل کرنے والے ایرانی کو برطانوی شہریت سے انکار

جواب میں انجیل کے آخری باب مکاشفہ سے اقتباسات دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ انجیل انتقام، تباہی، موت اور تشدد کی عکاسی سے بھری ہوئی ہے۔

برطانیہ کے ہوم آفس نے مسیحیت قبول کرنے والے ایک پناہ گزین کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی ہے کہ انجیل میں ایسے حوالے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیحیت ایک پرامن مذہب نہیں۔  

2016 میں پناہ مانگنے والے ایرانی شخص کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فائل پر لکھا گیا ہے کہ انجیل  میں ایسے اقتباسات اورحوالے ہیں جو ان کے اس دعوے سے تضاد رکھتے  ہیں کہ انہوں نے مسیحیت  ’پر امن‘ مذہب ہے۔ 

خط میں انجیل کے آخری باب مکاشفہ سے چھ اقتباسات دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انجیل ’انتقام، تباہی، موت اور تشدد کی عکاسی سے بھری ہوئی ہے۔‘

ہوم آفس نے مزید لکھا : ’یہ مثالیں آپ  کے اس دعوے سے تضاد میں ہیں کہ آپ نے مسیحیت کو ایک ’پر امن‘ مذہب پانے کے بعد قبول کیا،  اور  اسلام پر اسے ترجیح دی کیوں کہ وہ  تشدد، انتقام اور غصے سے بھرا ہے۔‘

دی انڈپینڈنٹ کے سوال کے جواب میں ہوم آفس نے کہا کہ یہ خط ان کی پالیسی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

 ہوم آفس کے مطابق وہ فیصلہ سازوں کو مذہب تبدیلی کے بارے میں دی گئی ٹریننگ  بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وکلا اور کارکن کہتے ہیں کہ اس کیس سے ’منطق کو بگاڑنے‘ اور پناہ گزینوں کی زندگی کے لیے ’لاپرواہی‘ ظاہر ہوتی ہے ۔

یہ سب ہوم آفس والوں میں  انکار کرنے کی کوئی بھی وجہ بنالینے کے رجحان سے پیدا ہورہا ہے۔  

پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے نیتھن سٹیونز نے ٹوئٹر پر لکھا: ’میں نے گزرے برسوں میں بہت کچھ دیکھا ہے مگر میں بھی پناہ دینے سے انکار کے اس  جواز کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’مذہب پہ آپ کے خیالات جو بھی ہوں لیکن کوئی سرکاری افسر کیسے کسی مقدس کتاب سے من مانے حوالے نکال کر دوسروں کے تبدیلی مذہب کے ذاتی فیصلے کو بے بنیاد قرار دے سکتا ہے؟‘

امیگریشن کے حالیہ اعدادو شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2015-2016سے اب تک ہوم آفس میں غلط انکاری فیصلوں کے خلاف کامیاب اپیلوں کی تعداد میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ماہر قانون اور فری موومنٹ ویب سائٹ کے ڈپٹی ایڈیٹر کانر جیمز نے کہا: ’آپ جوابی خط کے الفاظ سے دیکھ سکتے ہیں کہ اسے لکھنے والا پناہ کی درخواست دینے والے کی مسیحیت قبول کرنے کی کہانی میں عیب نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسا کرنے کے لیے انجیل کی آیات استعمال کر رہا ہے۔‘  

کانر جیمز کے مطابق: ’ہوم آفس پناہ کی درخواستیں مسترد کرنے کی کوئی بھی وجہ بنا لینے کے لیے بدنام ہے اور یہ تو  خاص طور پر ایک الگ ہی مثال لگ رہی ہے۔'

پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے  (جے آر ایس) کی ڈائریکٹر  سارہ ٹیتھر نے  کہا : 'یہ کیس لوگوں کی  زندگی اور موت سے جڑی درخواستوں کی  جانب لاپروا ہ اور غیر سنجیدہ سوچ کی ایک مثال ہے۔' انہوں نے مزید کہا کہ جے آر ایس نے اکثر ایسے کیس دیکھے ہیں جن میں  پناہ کی درخواستیں ’جعلی بنیادوں‘ پر مسترد کی گئیں۔

نیشنل سیکیولر سوسائٹی کے سربراہ سٹیفن ایونز نے کہا کہ ہوم آفس کا ’دینیات کو جواز بنا کر پناہ کی درخواستیں مسترد کرنا نہاہت غیر مناسب ہے۔‘  

انہوں نے کہا: ’پناہ کی اپیل پر فیصلے ثبوتوں کی بنیاد پر ہونے چاہیں نہ کہ ریاست کی جانب سے کسی بھی مذہب کی ہونے والی تشریح پر۔ دینیات کا ماہر بننا ہوم آفس کا کام نہیں ہے۔‘

ہوم آفس  کی جانب سے وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ اس درخواست پر دیا جانے والا جواب ان کی پالیسی کے مطابق نہیں ہے۔

انہون نے مزید کہا: ’ہم اپنی پالیسی اور فیصلہ سازوں کی ٹریننگ بہتر کرنے کے لیے تمام پارٹنرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ مذہب تبدیلی کی بنا پر پناہ کے لیے دائر درخواستوں  پر بہتر غور کر سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا