مینگورہ پولیس سٹیشن پر خواجہ سراؤں کا دھاوا، پتھراؤ اور توڑ پھوڑ

خواجہ سرا پولیس سٹیشن کے سامنے سڑک پر احتجاج بھی کرتے رہے جس پر مینگورہ پولیس سٹیشن کے عملے نے آٹھ خواجہ سراؤں کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اورتوڑپھوڑکے الزام میں مقدمہ درج کرکے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔

مینگورہ پولیس سٹیشن پر حملے کے الزام میں آٹھ خواجہ سراؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

سوات کے علاقے مینگورہ پولیس سٹیشن کے محررشاہد خان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ چار دن پہلے نعمت اللہ نامی خواجہ سرا نے دو افراد حسین اور سجاد کے ساتھ تنازع کے بعد رپورٹ درج کروائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ڈانس محفل میں ان کا جھگڑا مذکورہ بالا دونوں افراد سے ہوا تھا۔

پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف دفعہ 107 کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں جمعے کے روز گرفتار کر لیا تھا۔

قانون کے تحت ملزمان بروز ہفتہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیے گئے اور عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرکے رہائی کے احکامات جاری کردیے۔ 

محرر کے مطابق خواجہ سراؤں نے ملزمان کی ضمانت منظور ہونے کی وجہ سے مشتعل ہو کر پولیس سٹیشن مینگورہ پر دھاوا بول دیا، تھانے کے گیٹ پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔

بعد ازاں خواجہ سرا پولیس سٹیشن کے سامنے سڑک پر احتجاج بھی کرتے رہے جس پر مینگورہ پولیس سٹیشن کے عملے نے آٹھ خواجہ سراؤں کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اورتوڑپھوڑکے الزام میں مقدمہ درج کرکے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔
ٹرانس ایکٹوسٹ فرزانہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ خواجہ سراؤں کے اس غیرقانونی اور غیرمہذب احتجاجی طریقے کی حمایت نہیں کرتیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’پولیس بتا رہی ہے کہ خواجہ سرا کی شکایت پر مقدمہ درج ہوا تھا اور ملزمان کو عدالت نے ضمانت پر رہا کیا۔ اگر پولیس مقدمہ بھی درج نہ کرتی، تب بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں قانونی طریقے سے اپنا مقدمہ لڑنا چاہئیے تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’معاشرے میں خواجہ سراؤں کی تضحیک ہوتی ہے اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا رویہ نہیں اپنایا جاتا۔ پولیس خواجہ سراؤں کے ساتھ وہ تعاون نہیں کرتی جو درکار ہوتا ہے اور مقدمات بھی صحیح درج نہیں کیے جاتے۔ اس وجہ سے عموماً ان کی جانب سے دائر ہوئے کیس کمزور بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ملزمان باآسانی ضمانت پر رہا ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کو بھی چاہیے کہ اپنے روئیوں میں تبدیلی لائے۔‘

مینگورہ پولیس کے مطابق تاحال کسی خواجہ سرا کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب ٹرانس ایکٹوسٹ فرزانہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ تین خواجہ سرا گرفتار کر لیے گئے ہیں جب کہ پولیس ان کی گرفتاری سے انکاری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان