پختونخوا کابینہ: اراکین برطرف ہونے سے حکومت کو کوئی خطرہ ہوگا؟

خیبر پختونخوا کے سینئیر وزیر محمد عاطف خان سمیت وزیر صحت اور وزیر ریونیو کو صوبائی کابینہ سے نکال دیا گیا۔

محمد عاطف خان صوبائی وزیر برائے ٹورازم تھے۔ (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے سینئیر وزیر محمد عاطف خان سمیت وزیر صحت اور وزیر ریونیو کو صوبائی کابینہ سے برطرف کر دیا گیا-  صوبائی انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن میں لکھا گیا ہے کہ گورنر کے پی نے آئین کے آرٹیکل 132 کو استعمال کرتے ہوئے صوبائی وزرا محمد عاطف خان، شہرام خان ترکئی اور شکیل احمد کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔

تینوں وزرا پاکستان تحریک انصاف کے سینئیر رہنما ہیں۔ محمد عاطف صوبائی وزیر برائے ٹورازم تھے جب کہ شہرام خان ترکئی کو حال ہی میں کابینہ میں تبدیلی کے بعد وزیر صحت بنایا گیا تھا نیز اس سے پہلے وہ وزیر بلدیات بھی رہ چکے ہیں۔

عاطف خان اور وزیر اعلیٰ کے مابین تنازع

صوبائی وزیر عاطف خان ، شہرام خان اور شکیل احمد کے گروپ اور وزیر اعلی کے مابین تنازع تب سے چلا آرہا ہے جب محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا کیوں کہ عاطف سمجھتے تھے کہ انہیں وزیر اعلیٰ بنایا جائے جب کہ عمران خان محمود خان کو وزیراعلیٰ بنانے پر بضد تھے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق عاطف خان سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے گروپ سے ہیں اور پرویز خٹک عاطف خان ہی کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔

گزشتہ ہفتے یہ تنازع پھر سے شروع ہوگیا جب عاطف خان کے قریی ساتھی اور شہرام خان ترکئی کے ماموں علی محمد ترکئی نےمیڈیا کو بتایا کہ صوبے میں کرپشن بڑھتی جا رہی ہے جب کہ عمران خان کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔

علی محمد کا کہنا تھا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو اس حکومت کے ساتھ آگے جانا مشکل ہو جائے گا اور ان سے راستہ الگ کرنے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈیا اطلاعات کے مطابق صوبائی اراکین اسمبلی میں سے 20 ایسے ہیں جو فارورڈ بلاک بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کر رہے ہیں کیوں کہ ان میں سے کچھ صوبائی کابینہ میں ہونے والے حالیہ ردوبدل پر خوش نہیں تھے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ وزیر اعلیٰ ہاوس کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محمود خان اس ساری صورت حال کودیکھ رہے ہیں اور ان کا موقف بالکل واضح ہے کہ کابینہ میں ردو بدل عمران خان کی ہدایت پر کیا گیا ہے اور صوبائی حکومت کے ارکان اسمبلی سے مشورہ نہیں لیا گیا کہ کسے وزیر بنایا جائے اور کس کو ہٹایا جائے۔

اہلکار نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ بالکل مطمئن ہیں اور انھیں عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

یاد رہے کہ نکالے جانے والے وزرا میں ایک شہرام ترکئی بھی ہیں جن کی اپنی عوامی جمہوری اتحاد پارٹی ہے جس کا 2013 میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیا گیا تھا اور بعد میں اس پارٹی کو پی ٹی آئی میں ضم کر دیا گیا تھا۔ تاہم پارٹی کی رجسٹریشن ختم نہیں کی گئی اور اب بھی یہ پارٹی الیکشن کمشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔

اس تمام صورت حال پر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ سب کو پتہ ہیں کہ شروع دن سے یہ ارکان  دھڑے بازی کررہے تھے۔ پارٹی اور حکومت کے اندر بھی گروپنگ کر رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کو وزیر اعظم کی جانب سے بھی سمجھایا گیا لیکن یہ پھر بھی کابینہ کے فیصلوں کے خلاف باتیں کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہیں وزارتوں سے ہٹایا گیا۔

تینوں وزرا کو نکالے جانے کے بعد کیا صوبے کی سیاست یا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

اسمبلی کی کارروائی پر نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 95 ہےاور پی ٹی آئی کے پاس دو تہائی اکثریت ہے۔ پی ٹی آئی کو بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور دو آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے۔

20 ارکان کے پریشر گروپ کی جو بات ہوتی ہے تو اگر یہ 20 اراکین حکومت سے علیحدہ بھی ہو جائیں تو حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان 20 اراکین کے ساتھ اگر حزب اختلاف کے 41 اراکین بھی شامل ہو جائیں اور یہ تعداد 61 ہو جائے تو بھی پی ٹی آئی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ اسمبلی میں  سادہ اکثریت کے لیے 145 اراکین میں سے 73 کی حمایت چاہیے ہوتی ہے جو پی ٹی آئی کے پاس موجود ہے۔

صحافی و تجزیہ کار صفی اللہ گل سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے ایک مضبوط اور واضح پیغام سامنے آ گیا کہ پی ٹی آئی میں عمران خان بطورچیئرمین اس قسم کے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں اور یہ دوسرے اراکین کے لیے ایک پیفام بھی ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کے خلاف نہ جائیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وزرا کو نکالنے سے پارٹی کو کوئی نقصان پہنچا ہے، اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ حکومت کو توکوئی خطرہ نہیں تاہم بطور پارٹی اس سے نقصان ضرور ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سینئیر اراکین تھے۔

تاہم انھوں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ان اراکین کے گلے شکوے پارٹی چیئرمین تک پہنچائے گا اور شاید وہ یہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل کر لیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست