ارمان لونی روایتی بھائی نہیں تھا: وڑانگہ لونی

ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں ایک طرف ارمان کے جانے سے ہمارا گھر متاثر ہوا وہیں ہمارا سرپرست اور گھر کا کفیل بھی چلا گیا۔

 وڑانگہ لونی کا کہنا ہے کہ ارمان لونی کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ وہ روایتی بھائی نہیں تھا۔ ’ہم بہت پسماندہ علاقے کے ہیں۔ پشتون معاشرے میں کسی بھی عورت کا ویسے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ سیاست کرے تو اسے ہر طرف سے مخالفت کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘ (سوشل میڈیا)

ارمان لونی پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما تھے جنہیں ایک سال قبل بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک مظاہرے کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔ پی ٹی ایم کی جانب سے ان کی ہلاکت کا ذمہ دار پولیس کو قرار دیا جاتا ہے لیکن پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

دوفروری کو ارمان لونی کی برسی کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی کا کہنا تھا کہ ’ارمان لونی نے بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں نئی روایت کی بنیاد ڈالی اور عورت کو سیاست میں متعارف کرایا جو کسی کے لیے بھی ناقابل برداشت تھا۔‘

 وڑانگہ لونی بتاتی ہیں کہ ارمان ایک مختلف قسم کا انسان تھا جو ایک دانشور اور حساس بندہ تھا جو سب کو ساتھ لے کر چلتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو ارمان لونی کی صورت میں ایک مضبوط اور باشعور قیادت ملی جس نے تحریک کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ارمان کی بہن وڑانگہ لونی کہتی ہیں کہ ’جہاں ایک طرف ارمان کے جانے سے ہمارا گھر متاثر ہوا وہیں ہمارا سرپرست اور گھر کا کفیل چلا گیا۔‘

وڑانگہ کے مطابق ارمان کی سوچ اپنے قوم کے حوالےسے بہت گہری تھی۔ ’ہم چونکہ ایک پسماندہ علاقے اور قبیلےسے تعلق رکھتے ہیں جن میں خواتین کے حوالے سے بہت سخت قواعد ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ارمان لونی نے نہ صرف اپنی قبائلی روایات کو توڑا بلکہ اس نے قبیلے کی صدیوں سےرائج پابندیوں کو بھی چیلنج کیا۔ وڑانگہ کے مطابق انہوں نے نہ صرف خود سیاست شروع کی بلکہ مجھے بھی اس میں شامل کیا۔

 وڑانگہ لونی کا کہنا ہے کہ ارمان لونی کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ وہ روایتی بھائی نہیں تھا۔ ’ہم بہت پسماندہ علاقے کے ہیں۔ پشتون معاشرے میں کسی بھی عورت کا ویسے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ سیاست کرے تو اسے ہر طرف سے مخالفت کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

وڑانگہ لونی کے مطابق ’جہاں تک لونی قبیلہ کا تعلق ہے تو ہ بہت ہی پسماندہ اور بیک ورڈ ہے اور وہاں آج بھی روڈ نہیں، بجلی نہیں ہے، سکول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے علاقے سے کسی کا اپنی جوان بہن کو ساتھ لے کر قبائلی روایات کی مخالفت کرکے سامنے آنا بہت دل گردے کا کام ہے۔‘

وڑانگہ نے کہا کہ ’ارمان کی جدوجہد رنگ لارہی ہے اور لوگ ہمارے قافلے کا حصہ بن رہے ہیں بڑی تبدیلی یہ ہے کہ پشتون قبائل کےلوگ اپنے عورتوں کے ساتھ سیاست کا حصہ بن رہے ہیں۔‘

وڑانگہ لونی کے مطابق پی ٹی ایم بنوں کے جلسے میں موسیٰ خیل سے ایک شخص نے شرکت کی جن کا نام مراد کاکا ہے۔ واضح رہے کہ موسیٰ خیل بہت ہی بیک ورڈ علاقہ ہے جہاں عورتوں کے حوالے سے بہت سخت رویہ رکھا جاتا ہے۔ وڑانگہ بتاتی ہیں کہ مراد کاکا نہ صرف خود جلسے میں شریک ہوئے بلکہ اپنی جوان بیٹی کو بھی ساتھ لائے تھے، انہوں نے ارمان لونی اور میرا حوالہ دیا کہ اگر وہ جلسوں میں شرکت کرسکتی ہے تو میں بھی اپنی بیٹی کے ساتھ پی ٹی ایم کے جلسے میں شرکت کروں گا۔

 ارمان کے جانے کے بعد گھر کا ماحول کیساہے؟

ارمان کی بہن نے بتایا کہ ’اگر کسی کے گھر میں جوان موت ہوتی ہے گھر کا سرپرست قتل ہو جاتا ہے تو لازمی بات ہے کہ یہ بہت درناک ہے۔ ارمان لونی کے بچے ہیں اور دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی اپنے والد کے ساتھ اٹیچ تھے۔ ارمان لونی کے جانے کے بعد بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا ہے خاص کر ارمان کی بڑی بیٹی مینہ کی بات کریں تو وہ بہت حساس ہے جب گھر میں ارمان کی بیوہ اور والدہ ارمان کو یاد کرکے روتی ہیں تو یہ بچی کو شش کرتی ہے کہ بات چیت کے موضوع تبدیل کردیتی ہے۔ وڑانگہ کے مطابق مینہ اتنی حساس ہے کہ ہمارے سامنے روتی بھی نہیں ہے، اکیلے  میں جاکر روتی ہے اور اس کی عمر چھ سال ہورہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’وہ اتنی چھوٹی عمر میں حساس ہے اسے احساس ہے کہ میرے رونےسے سارے گھر والوں کو تکلیف ہوگی ۔ بعض اوقات اگر وہ خواب میں والد کو دیکھ لے تو صبح صرف ابو کہہ کرخاموش ہوجاتی ہے کہ یہ میں نے کیا کہہ دیا ۔ سارے گھر والے ایک دوسرے کے لیے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کرتے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو اس لیے ہم ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گھر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔‘

ارمان گھر والوں کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھتے تھے؟

وڑانگہ نے بتایا کہ ’ہمارے پشتون معاشرے میں بڑے بھائی اور والد کا الگ مقام ہے اس لیے بہنیں اپنے والد اور بڑے بھائی سے کچھ بھی شیئر نہیں کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ بڑے بھائی اور والد کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتی ہیں۔ لیکن ارمان ایسا تھا کہ میں اس کے ساتھ ہر معاملےڈسکس کرتی تھی اور بعض اوقات اس کی باتوں سے اختلاف بھی کرتی تھی۔ ارمان کی سوچ اتنی گہری تھی اور وہ اتنا متاثر کن شخصیت کا حامل تھا کہ جو بھی ایک بار ملتا اسی کا ہوجاتا تھا۔‘

ارما ن لونی کی ہلاکت کے بعد مقدمہ کا کیا ہوا؟

وڑانگہ لونی کے مطابق ’ارمان لونی کی ہلاکت کے بعد ہم نے مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی لیکن ابتدا میں کسی نے مقدمہ درج نہیں کیا۔‘ ان کے مطابق  چالیس روز بعد مقدمہ لورالائی میں درج کیا گیا جس میں ایک پولیس اہلکار کو بھی نامزد کیا گیا لیکن اس کی گرفتاری تاحال نہیں ہوسکی ۔

وڑانگہ کے مطابق ’مقدمہ تو قتل کا درج ہے لیکن ایک سال ہورہے ہیں اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، مقدمہ وہیں کا وہیں ہے۔‘

ارمان کی بہن بھی تحریک کاحصہ ہے؟

وڑانگہ کے مطابق وہ ارمان کے جانے سے پہلے بھی تحریک کاحصہ تھیں اور اب بھی ہیں۔ ’ہم اس تحریک کا حصہ سوچ سمجھ کر بنے ہیں۔ کسی بھی تحریک میں اگر ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے تو ضروری ہے کہ اس راہ میں رکاوٹیں بھی آئیں گی، قربانی بھی دینا ہوگی اور جیلوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد بھی برداشت کرنا ہوگا جس کے لیے ہم تیار ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین