مجھ کو بھی اک گناہ کا حق ہے

سائے کو پکڑنا دن میں ممکن نہیں ہوتا، رات آئے تو وہ بھی کھو جاتا ہے، اس اکیلے پن میں کہاں جائیں گے؟ اتنی کامیابیاں لے کر کہاں جائیں گے؟ اتنی جنگیں لڑ کر جیت کے کتنے تمغے پہنیں گے؟ کیا کرنا ہے؟

بڑے سے بڑے انسان اور بڑے سے بڑے نظریے کے بارے میں ہمیشہ دو طرح کی رائے ہوتی ہے، ایک ان کی فیور میں ایک ان کے خلاف، تو اگر کوئی ہمارے خلاف ہے، تو بھی کیا ہے؟ (پکسابے)

پتہ ہے آپ کے سارے مسئلے آپ سے شروع ہو کے آپ پہ ہی ختم ہوتے ہیں؟

ایک چیز ہوتی ہے انا، سیلف ریسپیکٹ، میں، میری بات، میرا کہنا، میرا لکھنا، میری شکل، میرا قد، میرے کپڑے، میرا کھانا، میرا چلنا، میرا پہننا، میرا اوڑھنا، میرا چین، میرا سکون، میری نیند، میری دوستیاں، میرے رشتے، میرا وقت، میرے پیسے، میرے خواب، میری زندگی اور میری موت۔ ہم لاکھ چاہیں لیکن اس کے طواف سے باہر نکل نہیں پاتے۔ ہم اتنا زیادہ وقت اپنے بارے میں سوچنے اور اپنے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے میں لگا دیتے ہیں اور کبھی محسوس تک نہیں کر پاتے کہ اپنے ہی ساتھ ہم نے ہاتھ کیا کر دیا۔

آپ ساری زندگی خود اپنا ہی وہ عکس بنے رہتے ہیں جو اصل میں آپ لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں۔

دیکھیے یہ جو انا ہے یہ بڑے غیر محسوس طریقے سے آپ کے راستے میں کھڑی ہوتی ہے۔ سوچیں کہ جب آپ ایک اچھے بیٹے بننا چاہتے ہیں، ایک اچھے باپ کا رول نبھانا چاہتے ہیں، ایک ماڈل استاد بننا چاہتے ہیں، ایک ایماندار افسر کہلانا چاہتے ہیں، ایک عبادت گزار انسان ہونا چاہتے ہیں، ایک شریف آدمی کہلانا چاہتے ہیں، چاہتے کہ لوگ آپ کو ایک بااصول انسان سمجھیں تو اس کے پیچھے کیا چل رہا ہوتا ہے؟ آپ کی اصل شخصیت پہ آپ کا وہ رول حاوی آ جاتا ہے جو آپ ادا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ آپ ویسے ہوتے نہیں لیکن آپ وہ لگنا چاہتے ہیں، بننا چاہتے ہیں، دکھنا چاہتے ہیں، اصل رپھڑ یہ ہوتا ہے۔ اب ان ساری کوششوں کا حاصل کیا ہو گا؟ آپ کی اصل شخصیت اور وہ والے آپ، جو آپ لگنا چاہتے ہیں، وہ دونوں آپس میں ٹکراتے رہیں گے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ ہو گی۔ اسی میں آپ روئیں گے، چیخیں گے، سوچ سوچ کے سواہ ہو جائیں گے لیکن آپ کو سمجھ نہیں آئے گی کہ مسئلہ کہاں شروع ہوا تھا، خود کو اپنے آپ سے بچائیں۔ 

جو آپ نظر آنا چاہتے ہیں اس تصور سے پیار نہ کریں، جو آپ ہیں، اسے اہمیت دیں۔

بندہ کوئی اتنی اہم چیز نہیں ہوتا یار کہ اس کے بغیر دنیا نہ چل سکے۔ بل کلنٹن کے بغیر امریکہ چل رہا ہے، ضیا الحق اور بھٹو کے بغیر پاکستان بھی اپنی جگہ پر ہے، عابد علی کے بعد وہ کردار شاید فردوس جمال کر لیں، عشرت فاطمہ کی جگہ کوئی نئی خاتون خبریں پڑھ رہی ہیں، ارشاد حقانی کی جگہ سلیم صافی کالم لکھ رہے ہیں، میں آج اپنی نوکری چھوڑتا ہوں تو سو بندے اپلائے کریں گے جاب کے لیے، مطلب چل چلاؤ کا معاملہ ہے بھائی۔ ہم میں کوئی ہیرے موتی نہیں جڑے ہوئے کہ ہم بہت ہی اہم ہوں، ہمارا کہا پتھر پہ لکیر ہو، ہماری خواہش کے مطابق دنیا چلے، ہماری تصویر پہ سب سے زیادہ لائکس آئیں، ہماری ہر بات پہ دنیا واہ واہ کرے، ہم سب کے فیورٹ ہوں، ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ بڑے سے بڑے انسان اور بڑے سے بڑے نظریے کے بارے میں ہمیشہ دو طرح کی رائے ہوتی ہے، ایک ان کی فیور میں ایک ان کے خلاف، تو اگر کوئی ہمارے خلاف ہے، تو بھی کیا ہے؟ اور کوئی ساتھ ہے تو ہمیں کون سے وہ سرخاب کے پر لگا رہا ہے؟ مطلب ہم ہیں کون؟ ہماری اہمیت کیوں ہو؟ ہمیں کیوں مانا جائے؟ اس لیے کہ ہم یہ چاہتے ہیں اور ساری زندگی اس کی قیمت ادا کرتے ہیں؟ اگر یہ سب نہ چاہا جائے، اگر یہ سارا بوجھ کندھوں سے اتار کے پھینک دیا جائے اور بندہ ٹھنڈا ہو کے بیٹھ جائے تو برا کیا ہے؟ مستقل نہ سہی وقتی طور پہ ٹرائے کرنے میں کیا حرج ہے؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ ساری زندگی خود اپنا ہی وہ عکس بنے رہتے ہیں جو اصل میں آپ لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں۔ اس چکر میں چاہے دن رات کام کرنا پڑے، پڑھنا پڑے، لوگوں کو پیچھے ہٹانا پڑے، کسی کو باتیں سنانا پڑیں، کسی سے لڑنا ہو، کسی کو خاص توجہ دینا ہو، آپ وہ سب کچھ کرتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی کہے کہ نہیں بھئی آپ ایک فراڈ ہیں، آپ وہ نہیں ہیں جو آپ نظر آتے ہیں تو آپ ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ وہ بندہ آپ کو زہر لگنا شروع ہو جاتا ہے، کیوں؟ کیوں کہ اس نے آپ کے آئیڈیل دکھاوے کو توڑ پھوڑ دیا، آپ کے بت پہ ہتھوڑا مار دیا، کون سا بت؟ انا کا بت! وہی بت جسے پال کے ساری زندگی اس کے گھٹنوں میں بیٹھے میں آپ ضائع کر رہے ہیں۔ تھوڑی جگہ اپنے آپ کو دیں۔

انسان اصولوں کے لیے نہیں ہوتے، اصول انسانوں کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ اصل میں وہ ہیں جو آپ کی سوچ ہے، وہ نہیں ہیں جو آپ لوگوں کو نظر آنا چاہتے ہیں، کبھی خود کے ساتھ ایک دن گزار کے دیکھیں، کبھی اپنے اصولوں، اپنی شخصیت، اپنے وقار، اپنے اعتماد، اپنی پرسنیلٹی، اپنے بڑے پن، اپنی سنجیدگی، اپنی پوزیشن، ان سب کی چھتری سے باہر نکل کر دیکھیں، دنیا خوب صورت نہ سہی، گندی بھی نہیں لگے گی۔ لوگ دشمن نہیں لگیں گے، کائنات خلاف نہیں لگے گی اور خود اپنا آپ بھی شاید اڑتا ہوا محسوس ہو۔ 

اتنا سب کچھ لکھنے کے بعد سب سے اہم بات اندازہ کریں کیا ہو گی؟ خود سے محبت ضرور کریں لیکن اپنی انا سے نہیں۔ جو آپ نظر آنا چاہتے ہیں اس تصور سے پیار نہ کریں، جو آپ ہیں، اسے اہمیت دیں۔ لوگ ہر حال میں تنقید کریں گے، ماحول ہمیشہ آپ کی حمایت میں نہیں ہو گا، سازشیں آپ کے خلاف ہوں گی، آندھیاں آئیں گی، طوفان آئیں گے لیکن اگر نرم شاخ کی طرح جھکے رہیں گے تو ستے خیر، اونچے درخت کی طرح اکڑے کھڑے رہے تو کب تک؟ کیسے ہو گا؟ پھر یہ کہ اگر کوئی آپ کو اہمیت نہیں دے رہا، آپ کے خلاف بات کر رہا ہے، آپ ہرٹ ہوئے ہیں تو اصل میں وہ سب بھی اس شخصیت کے خلاف کیا جا رہا ہے جو آپ دوسروں کے سامنے بنے ہوئے ہیں۔ اس پردے کے پیچھے سے دیکھیں تو آپ کو گالیاں دینے والے بھی کوئی ایسے دشمن نہیں لگیں گے۔ 

ادھر، کھوپڑی میں چابی ہے اس خزانے کی۔ کب تک اپنی انا کو چارہ کھلاتے رہیں گے؟ کب تک وہ بنیں گے جو آپ ہیں نہیں؟ کب تک اپنی اصل جبلتوں سے لڑتے رہیں گے؟ سائے کو پکڑنا دن میں ممکن نہیں ہوتا، رات آئے تو وہ بھی کھو جاتا ہے، اس اکیلے پن میں کہاں جائیں گے؟ اتنی کامیابیاں لے کر کہاں جائیں گے؟ اتنی جنگیں لڑ کر جیت کے کتنے تمغے پہنیں گے؟ کیا کرنا ہے؟ تھوڑی سی زندگی ہے، گنتی کی سانسیں ہیں، تین چار سو تو اس بلاگ کے پڑھنے میں ہی ٹھکانے لگ گئیں۔ تو بس سکون کریں، تھک جائیں، ہار مانیں، بوجھ اتاریں، بستر پہ لیٹیں، سوچیں ۔۔۔ اکھاڑا کیا ہے اب تک اتنا سب کچھ کر کے؟ موج کریں! 

روح کو ایک آہ کا حق ہے
آنکھ کو اک نگاہ کا حق ہے
ایک دل میں بھی لے کے آیا ہوں
مجھ کو بھی اک گناہ کا حق ہے

خیر ہو آپ کی بھی عدم صاحب! 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ