چین میں کرونا سے پانچ پاکستانی متاثر، ’فکر کی کوئی بات نہیں‘

پاکستان میں تعینات چینی سفیر یاؤ جِنگ کے مطابق متاثرہ پاکستانی ووہان شہر میں نہیں رہتے بلکہ ان کا تعلق گوانگ زو شہر سے ہے، تاہم وائرس کے پھیلنے سے پہلے وہ سیر کی غرض سے ووہان آئے تھے، جہاں وہ اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے۔

پاکستان میں تعینات چینی سفیر یاؤ جِنگ کا کہنا ہے کہ چین میں مہلک کرونا وائرس سے متاثرہ پاکستانیوں کی تعداد پانچ ہے، جنہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور وہ بہتری کی جانب گامزن ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں چینی سفیر نے اپنے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ، اس سے بچاؤ کے حکومتی اقدامات اور علاج معالجے خصوصاً پاکستانی شہریوں کی صورت حال کے بارے میں گفتگو کی۔

یاؤ جِنگ نے بتایا کہ ’کرونا سے متاثرہ پاکستانی ووہان شہر میں نہیں رہتے بلکہ ان کا تعلق گوانگ زو شہر سے ہے، تاہم وائرس کے پھیلنے سے پہلے وہ سیر کی غرض سے ووہان آئے تھے، جہاں وہ اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پانچوں پاکستانیوں کو فوراً اسپتال میں داخل کرکے الگ تھلگ (Isolate) کر دیا گیا تھا اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان پانچوں پاکستانی طالب علموں کی حالت بہتر ہو رہی ہے، فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

یاؤ جنگ نے بتایا کہ چین میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے صورت حال بہت سنگین ہے۔ اب تک اس وائرس سے 400 سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثر ہونے والوں کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہے۔

چینی سفیر نے بتایا کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح وائرس سے متاثر ہونے والوں کا علاج ہے، کیونکہ قیمتی جانوں کا ضیاع روکنا بہت ضروری ہے جبکہ دوسری ترجیح اس وائرس کو چین کے اندر اور بیرونی دنیا میں پھیلنے سے روکنا ہے۔ 

چین میں لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کا تحفظ کرتے ہوئے چینی سفیر نے کہا کہ اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یہ سب سے بہترین طریقہ ہے، اسی لیے اس وقت چین میں لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں، وہاں کسی قسم کے عوامی اجتماعات نہیں ہو رہے اور چین کے شہریوں کو ملک سے باہر جانے سے پہلے کم از کم 14 دن تک الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔

چین سے پاکستان آنے والے افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں یاؤ جِنگ نے بتایا کہ چینی حکومت نے چین سے پاکستان سفر کرنے والوں کے لیے بھی سخت نظام نافذ کیا ہوا ہے۔

’ایسے لوگوں کو دو ہفتوں کے لیے مشاہدے میں رکھا جائے گا اور پاکستان پہنچنے پر انہیں دوبارہ دو ہفتوں تک الگ تھلگ رکھا جارہا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے ساتھ ساتھ ہم دیگر ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے بھی مستقل رابطے میں ہیں تاکہ معلومات اور وائرس پر قابو پانے کے لیے مہارت کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔‘

یاؤ جِنگ کا کہنا تھا کہ دنیا اس وقت کرونا وائرس کے خلاف چینی حکومت کے اقدامات کو سراہ رہی ہے۔ ’ہم اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں پوری امید اور اعتماد ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی مدد سے ہم اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

لوگوں کو چین سے باہر جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟

اس سوال کے جواب میں صحت کے عالمی ادارے کی ہدایات کے باوجود بعض لوگوں کو چین سے باہر جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟ یاؤ جِنگ نے بتایا کہ ’جو لوگ چین سے باہر جا رہے ہیں وہ غیر ملکی ہیں اور ہم غیر ملکیوں پر سخت پابندیاں نہیں لگا سکتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس وقت پابندیاں صرف صوبے ہوبئے اور ووہان شہر میں لگائی گئی ہیں اور وہاں سے ہم لوگوں کو باہر جانے نہیں دے رہے، لیکن کچھ ملک جن میں امریکہ بھی شامل ہے، اپنے شہریوں کو واپس نکالنا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو ہم ان کو اجازت دے رہے ہیں۔‘

چینی سفیر نے مزید کہا کہ ’ووہان سے نکالے جانے والے امریکی شہری جب اپنے ملک پہنچے تو وہاں دو افراد اس وائرس سے متاثر نکلے۔ اسی طرح روس کے شہریوں کے ساتھ بھی یہ ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’(وائرس سے متاثرہ مقام سے) لوگوں کو نکالنے میں بعض اوقات خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ نہایت ہی سائنسی ہدایات ہیں کہ آپ جہاں ہیں وہی رکیں۔‘

تاہم چینی سفیر نے اچھی خبر دی کہ وائرس سے متاثر ہونے والے 500 سے زیادہ لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں اور انھیں گھروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان