طالبان سے امن معاہدہ خطروں سے خالی نہیں: امریکی وزیر دفاع

امریکی میڈیا کے مطابق آج طالبان اور واشنگٹن کے درمیان امن معاہدے کا باضابطہ اعلان ہو سکتا ہے، جس کے بعد افغانستان میں تشدد کم ہونا شروع ہو جائے گا۔

امریکی وزیر دفاعمارک ایسپرکا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی امن معاہدے کے حامی ہیں (اے ایف پی)

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے تحت امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنا خطرے سے خالی نہیں لیکن ایسا ہونا ’ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔‘

ایسپر نے یہ بیان ہفتے کو سات دن کے لیے ’تشدد میں کمی‘ کے معاہدے کے اعلان کے دوران دیا۔ ان کا کہنا ہے اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے امن کو موقع دیا جائے۔

ان کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب ایک سینیئر امریکی عہدے دار بتا چکے ہیں کہ معاہدہ طے پا چکا ہے اور بہت جلد نافذ العمل ہو جائے گا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ اتوار کو اس معاہدے کا باضابطہ طور پر اعلان کر دیا جائے گا اور سوموار سے تشدد میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔

ایسپر نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے شرکا کو بتایا: ’اس وقت ہمارے سفیر اور طالبان کے درمیان تشدد میں کمی کا ایک معاہدہ زیر غور ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں امن کو ایک موقع دینا ہو گا کیونکہ یہ افغانستان میں آگے بڑھنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے گو کہ اس میں ہمیں نئے خطرے مول لینا ہوں گے۔‘

جمعے کو ایسپر اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان صدر اشرف غنی سے میونخ میں ملاقات کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان صدر اس معاہدے پر شاکی نظر آتے ہیں۔ اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے تو تشدد کی لہر میں سات دن کا وقفہ آجائے گا، جس کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہو سکتے ہیں۔

منصوبے کے مطابق معاہدے کے 10 دن کے اندر تمام افغان امن مذاکرات شروع ہو جائیں گے جس کا مقصد اگلے 18 ماہ کے دوران امریکی فوج کا مرحلہ وار انخلا ہو گا۔

ایسپر نے صحافیوں سے گفتگو میں یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا امریکہ میں افغانستان سے تمام افواج نکال لینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

افغان صدر نے بھی منصوبے کے نکات پر بات کرنے سے انکار کیا لیکن انہوں نے کہا وقت آچکا ہے کہ ’جنگ کو ختم کرنے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔‘

اشرف غنی کے مطابق یہ جاننا ناممکن ہے کہ طالبان امریکی افواج کے انخلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قوت بڑھانے کی کوشش کریں گے، ’لیکن یہ جاننے کا واحد طریقہ امن مذاکرات میں شمولیت اختیار کرنا ہے۔‘

’اس کا اہم امتحان یہ جاننا ہو گا کہ کیا طالبان انتخابات کو قبول کریں گے؟‘

انہوں نے اس تاثر کو جھٹلایا جس کے تحت طالبان کو افغانستان کے کئی حصوں پر زیادہ اختیارات دینے کی بات کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ افغانستان کے لیے ان کے نظریے سے متضاد ہے کیونکہ افغانستان ایک متحد ملک ہے۔

امن معاہدے کو گذشتہ ہفتے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد اور افغان نمائندے کے درمیان قطر میں حتمی شکل دی گئی ہے۔

امریکی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ افغان صدر اس معاہدے کے حامی ہیں اور انہوں نے اس معاہدے کی حمایت کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اشرف غنی موجودہ حکومت میں اپنے اتحادی عبداللہ عبداللہ کے ساتھ اختلافات رکھتے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ مذاکرات کی میز پر حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن افغان صدر زور دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات کی قیادت کریں جبکہ ان کے سیاسی مخالفین مذاکرات میں مزید متنوع نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا