صرف نوجوان ہی اپنے فون کے نشے کا شکار نہیں

جب ہم اپنے دوستوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، ٹرین میں بیٹھے ہوں یا بستر میں ہوں تو ہم اپنا فون نکالتے ہیں اور پوری دنیا کو دعوت دے دیتے ہیں۔ مسلسل پیغام بھیجنا، ایپس کو بار بار چیک کرنا یا ایسی معلومات کو تلاش کرنا جو ہمارے دماغ کا نشہ پورا کر سکے۔

آج کل یہ کتاب ایک فون ہوتا ہے جس میں ہم انسٹا گرام سٹوری دیکھتے ہیں بجائے کتاب کے کاغذ دیکھنے کے۔ (اے ایف پی فائل)

جریدے بی ایم سی سائیکاٹری میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 23 فیصد نوجوانوں میں ایسی علامات سامنے آئی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ اپنے سمارٹ فونز کی لت کا شکار ہیں۔ شکر ہے کہ اس تحقیق میں 40 سال سے زائد عمر کے افراد کو شامل نہیں کیا گیا۔ ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فون میں مصروف رہنے کی ہماری عادت ’کام‘ سے جڑی ہے لیکن میرے خیال میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔

میں نے اس حوالے سے باقاعدہ تحقیق نہیں کی لیکن میں پورے وثوق سے تصدیق کر سکتی ہوں کہ میں، ایک 46 سالہ خاتون شپی خورسندی، جو اس وقت اپنے کچن ٹیبل پر کالم لکھ رہی ہیں، ان کا سو فیصد اپنے فون کے ساتھ ایک پیچیدہ رشتہ ہے۔

جب میں ساتویں جماعت میں تھی جسے گذشتہ وقتوں میں مڈل سکول کہا جاتا تھا تو ہمارے پرنسپل کو اسمبلی میں ڈانٹ ڈپٹ کرنا پڑتا تھا۔ مقامی افراد شکایت کرتے تھے کہ کچھ بچے کتابوں کے مطالعے میں اس حد تک کھوئے ہوتے تھے کہ وہ گھر واپس جاتے ہوئے سڑک پر دھیان ہی نہیں دیتے تھے۔ اس دور میں ہم لوگ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ہم چلتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے۔ سٹرک پار کرتے دائیں بائیں دیکھتے اور واپس اپنی کتاب میں کھو جاتے تھے۔

آج کل یہ کتاب ایک فون ہوتا ہے جس میں ہم انسٹاگرام سٹوری دیکھتے ہیں بجائے کتاب کے کاغذ دیکھنے کے۔ جب تک میں یونیورسٹی نہیں گئی اور شراب سے آشنا نہیں ہوئی، تب تک میں بہت زیادہ کتابیں پڑھتی تھی۔ میں کسی سے بات بھی نہیں کرتی تھی اور اپنے کمرے میں کھانا کھاتی تاکہ میں پڑھ سکوں بجائے لوگوں سے ملنے کے۔ اور اگر میں اپنی کتابوں سے دور ہوتی تو میں بے چین ہو جاتی تھی۔ میں اپنا ہوم ورک کرنے اور دوستوں سے ملنے کی بجائے مطالعہ کرتی رہتی تھی۔

اب کچھ لوگ کہیں گے اس میں کچھ غلط نہیں تھا بلکہ یہ یقینی طور پر کئی انداز میں زبردست تھا لیکن کئی افراد اسے دنیا سے الگ رہنے کی ایک خواہش کے طور پر دیکھیں گے یا وہ اسے گھر میں ایک نشے کے عادی فرد کی موجودگی جیسا سمجھیں گے۔

مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ اگر میں آج کل کے دور میں نوجوان ہوتی تو میں اپنے فون سے چپکی رہتی اور اگر طوفان بھی آجاتا تو میں بس اتنا ہی کہتی ’تھوڑی سردی ہوگئی سے، سوئٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے‘ اور سوچتی کہ یہ گزر جائے گا اور سر نہ اٹھاتی۔

جب سگریٹ ایجاد ہوئے تو لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ وہ بس اتنا سوچتے تھے کہ یہ مختلف نشہ آور کیمکلز اپنے پھیپھڑوں کے اندر کھینچنا ایک سکون بخش مشغلہ ہے تو وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتے رہتے تھے کیوں کہ اس زمانے میں یہ ایک سماجی مشغلہ بن چکا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ درست ہے کہ فون کے جسمانی اثرات سگریٹ کی نوعیت کے نہیں ہیں لیکن دو دہائیوں بعد ہمیں یہ اندازہ ہوا ہے کہ ہر کوئی سمارٹ فونز کو استعمال کرنے کی ایک حد مقرر نہیں کر سکتا۔ عادی افراد ہمیشہ ہی کسی عادت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ فونز آپ کو پھیپھڑوں کی بیماری تو نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان کی وجہ سے آپ سے بدبو آتی ہے لیکن ان کا زیادہ استعمال ذہنی دباؤ، پریشانی اور بے چینی کی وجہ بن سکتا ہے۔

سمارٹ فونز ہمارے لیے ابھی کافی نئے ہی ہیں۔ ایک یا دو دہائیاں کچھ خاص نہیں ہیں اور ابھی شروعات میں ہی ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو اپنا فون نہیں رکھ سکتے۔ اب کم لوگ اپنے ہی خیالات میں مگن رہ پاتے ہیں۔ جب ہم پب میں اپنے دوستوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، ٹرین میں بیٹھے ہوتے ہیں یا بستر میں لیٹے ہوتے ہیں تو ہم اپنا فون نکالتے ہیں اور پوری دنیا کو دعوت دے دیتے ہیں۔ مسلسل پیغام بھیجنا، ایپس کو بار بار چیک کرنا یا ایسی معلومات کو تلاش کرنا جو ہمارے دماغ کا نشہ پورا کر سکے۔

مجھے کافی وقت لگا یہ سمجھنے میں کہ یہ ایک مسئلہ ہے، جب میری بیٹی بہت چھوٹی تھی تو وہ ایک تالاب میں گر گئی تھی۔ یہ ایک دوست کے گھر کے باغ میں ہوا۔ میں اس سے کچھ قدم ہی دور تھی اور مجھے کافی تاخیر سے اندازہ ہوا کہ آگے پانی تھا اور وہ اس میں گر چکی ہے۔ میں تالاب میں کودی اور اس کو باہر نکالا۔ وہ پھسل کر گری تھی اور ایک سیکنڈ کے لیے مکمل طور پر پانی میں تھی۔ وہ بہت خوفناک تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کو فوری طور پر نہلا کر گرم تولیے میں لپیٹ دیا اور ہاٹ چاکلیٹ دی۔ اب سب ٹھیک تھا۔

اگر میں اس کے پاس کھٹری نہ ہوتی تو وہ دن بالکل مختلف ہونا تھا۔ جب میں اس صدمے باہر آئی تو میں سکون کا سانس لے کر رو پڑی۔ میرا بیٹا اس وقت سات سال کا تھا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ ’کیا آپ اپنے فون پر مصروف تھیں جب وہ گری؟‘ میں فون پر مصروف نہیں تھی، بلکہ میرا فون میرے پاس نہیں تھا، پر ایسا ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ احساس کہ میرے بیٹے نے یہ سوچا کہ اس کی بہن اس لیے تالاب میں گر گئی کہ اس کی ماں فون پر مصروف تھی نے مجھے بہت پریشان کیا کہ وہ مجھے ایک ایسی خاتون کے طور پر دیکھتا ہے جو ہمیشہ اپنے فون کی سکرین کو تکتی رہتی ہے۔

تب سے ہی میں نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے۔ اگر میں اپنے بچوں کے ساتھ ہوں تو میرا فون دور ہوتا ہے۔ لیکن کالم لکھنا ایک الگ معاملہ ہے۔ ابھی یہ لکھنے کے دوران میں 17 بار اپنا فون چیک کر چکی ہون۔ آخر کار یہ ایک نشہ ہے۔ امید ہے میرے لکھنے کے دوران آپ میں سے کوئی تالاب میں نہیں گرا ہو گا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر