کتابیں زبردستی نہ پڑھیں

خود کو کسی بھی ایک نظریے کے ساتھ باندھ لینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے خلاف کچھ نہیں پڑھ سکتے، بس یہ خوف ناک بات ہے۔

دیکھیں سیدھی سی بات ہے، کتاب آپ کس وقت پڑھتے ہیں؟ فرصت میں، جب اچھا ٹائم پاس کرنا ہوتا ہے؟ تو اس وقت بھی دماغ کی دہی بنانے پر خود کو مجبور کیوں کرتے ہیں؟  (اے ایف پی فائل)

روسی ادب میں کبھی پڑھ نہیں سکا۔ طبیعت نہیں بنی۔ یا تو بچپن سے ہی ترجمے اوازار کرتے تھے یا پھر بہت سارے کرداروں کے جھمگٹے سے بھی چالو ہوں گا۔ ایک چیز جو اب سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس میں دکھوں کی بھرمار تھی۔ ہر ایک غم سے بھرا ہوا، پوری کائنات ٹریجڈی پہ چلتی ہوئی، جسے ہاتھ لگاؤ وہ فلسفہ جھاڑے گا، کیوں بھئی آخر کیوں؟ زندگی میں پہلے کم پریشانیاں ہیں جو دوسروں کے رولے بھی گلے میں لٹکا لیں؟ پھر ان کے نام یاد رکھنا بھی ایک الگ عذاب تھا۔

پڑھا لکھا کہلانے کے لیے انہیں ہلکا سا بھی ہاتھ لگانا چاہا تو جمائیاں آنی شروع، سمجھیں کورس والا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہی کوئی معاملہ ہے تو میں ہمت بندھانے کے لیے ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ ’پھر میں دل پہ جبر کر کے بیٹھا اور قسم کھائی کہ ہر ہفتے ایک ناول پڑھوں گا‘۔ نہیں، ہرگز نہیں، بھائی نے رشین ادب چوم کر ایک طرف رکھ دیا۔

قسم لے لیں جو آج تک کوئی پریشانی ہوئی ہو۔ ہاں بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر اس محرومی کا احساس ضرور ہوتا ہے لیکن اسی وقت جب یاد آتا ہے کہ بچے تو نے عمران سیریز پڑھی تھیں اس زمانے میں، تو دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے۔

دیکھیں سیدھی سی بات ہے، کتاب آپ کس وقت پڑھتے ہیں؟ فرصت میں، جب اچھا ٹائم پاس کرنا ہوتا ہے؟ تو اس وقت بھی دماغ کی دہی بنانے پر خود کو مجبور کیوں کرتے ہیں؟ کتاب وہ ہے بھائی جو آپ سے خود کو پڑھوا لے۔ شروع کے دو تین صفحوں میں کیس سیدھا ہو جاتا ہے کہ پڑھی جائے گی یا نہیں۔ اس کے بعد چل سو چل والا معاملہ ہوتا ہے۔

قدرتی معاملہ ہے کہ ہر کسی کی پسند الگ ہوتی ہے۔ کسی کو پیار محبت والی کہانیاں پسند ہوتی ہیں، کوئی سفرنامے پڑھنا چاہتا ہے، کوئی آپ بیتیاں پڑھنے کا شوق رکھتا ہے، کسی کو جاسوسی ناول پسند ہوتے ہیں، کوئی فلسفہ پڑھتا ہے، کوئی شاعری پڑھتا ہے، کسی کو تنقید سمجھ میں آتی ہے اور کوئی فکشن پڑھنا ہی نہیں چاہتا۔

اس میں زبردستی کا فائدہ کوئی نہیں ہونا۔ اگر آپ تاریخ پڑھنا پسند نہیں کرتے اور عالم کہلانے کے شوق میں مارے باندھے پڑھ بھی لیں گے تو آپ کا فوکس واقعات پہ رہے گا، ان کی تاریخی ترتیب بھول جائے گی۔ اسی طرح ہر اس چیز کے ساتھ ہو گا جو آپ خود پہ جبر کر کے اٹھائیں گے۔ عام آدمی مشکل کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں بنا ہوتا۔ وہ روحیں اور ہوتی ہیں جو بچپن سے ہر قابل ذکر چیز پڑھ کے جوان ہوتی ہیں، انہیں خود سے شوق ہوتا ہے مشکل پسندی کا، وہ قابل احترام ہیں لیکن ان کی نقل میں اپنے ہاتھ پیر کٹوانا اچھی بات نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج کل اردو والوں میں ایک رواج بہت زیادہ ہے۔ میں خود بھی عرصے تک اس کا شکار رہا۔ جب کوئی بھی انسان تھوڑی زیادہ کتابیں پڑھ جاتا ہے تو اس کی تنقید کا رخ قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی کی طرف ہو جاتا ہے۔

یہ بات سمجھنا تھوڑا دشوار ہے، اس کا اعتراف ایک ماڈرن ذہن کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکل ہے لیکن، لیکن یہ دوبارہ سوچیں کہ آپ نے جب پڑھنا شروع کیا تو کیا اماں باوا کی گود سے ہی روسی ادب پڑھتے آئے تھے یا انگریزی کتابیں اٹھائی تھیں؟ اگر یہ تحریر یہاں تک آپ نے پڑھ لی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اردو پڑھنے والے ہیں، آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ آپ یہاں تک کیسے پہنچے؟

بچوں کی کہانیاں، پھر ڈائجسٹ، پھر رضیہ بٹ، پھر شہاب نامہ، لبیک، علی پور کا ایلی، راجہ گدھ، زاویہ پھر کچھ مغربی ادب کے ترجمے، ساتھ ساتھ ماڈرن کتابیں اور اب انٹرنیٹ کے بلاگز۔ تو یہ سفر جو تھا اس کا ایک لازمی پڑاؤ وہ سب تھا جس پر آج پڑھے لکھے لوگ دبا کے تنقید کرتے ہیں۔ اس سے بھی الگ ہو کے اگر صرف خواتین ڈائجسٹ یا عمیرہ احمد کے ناول دیکھ لیں تو فقیر انہیں بھی آج کل کے اردو پڑھنے والوں کے لیے سفر کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

کچھ ہوں گے جو اپنی سہولت سے وہیں ٹک جائیں گے، کچھ ہوں گے جو آگے راستہ بنا لیں گے۔ اس میں اتنا تلملانے کی ضرورت کیا ہے؟ بات وہی ہے کہ اچھی کتاب وہ جو آپ سے خود کو پڑھوا جائے، یہ آپ کی ذہنی صلاحیت پر ہے کہ آپ کو شروع میں بریکیں لگ جائیں یا عالمی ادب کا نشہ ہو جائے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر کتاب، چاہے بیس سال بعد اس کے بارے میں آپ جو بھی رائے رکھیں، ایک پڑاؤ ہوتی ہے اس سفر کا جو زندگی بھر آپ کرتے رہتے ہیں۔ موڈ کے ساتھ پڑھیں اور مرضی کی چیز پڑھیں۔ ایسی عظیم ذاتی جہالتوں کی بات کر گیا تو یہ بھی سن لیں کہ فقیر آگ کا دریا کبھی نہیں پڑھ سکا۔ شروع میں ہی توجہ نہیں بنتی، کیسے آخر تک اسے کھینچا جائے؟ ا

س کے برعکس اپنے موراکامی کے جتنے مرضی ناول پڑھوا لیں، مرزا اطہر بیگ کے ناول ہیں، فوراً پڑھے جاتے ہیں۔ ابھی تازہ ترین دو کتابیں پڑھیں اور دونوں ایک ہی نشست میں ختم کیں۔ حسن عباس رضا نے خاکوں کی ایک کتاب لکھی، منزہ احتشام گوندل نے افسانوں کی، سکون سے پڑھ لیں۔

گیان سنگھ شاطر کی آپ بیتی پڑھتا رہا اس سے پہلے، وہ بھی ختم ہو گئی۔ اب ان تینوں کتابوں سے بہت دن پہلے کا ایک ناول آیا رکھا ہے، عورتوں کے بارے میں تھوڑی تلخ رائے ہے مصنف کی، وہ چار صفحوں سے آگے پڑھا ہی نہیں جا رہا۔ کیا ہو سکتا ہے، اللہ کی مرضی!

منزہ گوندل نے ایک بات بڑی زبردست لکھی اپنی کتاب کے شروع میں، کہ ہر تحریر کا ایک ذائقہ ہوتا ہے۔ یہ بڑی سبحان اللہ قسم کی بات ہے۔ وہاں پڑھنے سے مجھے سمجھ آیا کہ واقعی بعض تحریریں خوشبو دار ہوتی ہیں، بعض سے ناگوار سی ہمک آتی ہے، کچھ طبیعت پہ بھاری رہتی ہیں، کچھ پڑھ کے ایک خوشی کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔

کوئی تحریر ایک ہفتے کے لیے اداسی لے آتی ہے اور کوئی عجیب نامکمل پن کا احساس دلاتی ہے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے ایک لکھاری کا انداز بہت پسند تھا اور دس سال بعد اسے پڑھنے کا سوچ کے بھی اکتاہٹ ہوتی ہے۔ تو ذوق ہے، بدلتا رہتا ہے، ساتھ ساتھ چلتے جائیں، سکون رہے گا۔

خود کو کسی بھی ایک نظریے کے ساتھ باندھ لینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے خلاف کچھ نہیں پڑھ سکتے، بس یہ خوفناک بات ہے۔ دنیا بہت بڑی ہے، روز اتنا کچھ لکھا جا رہا ہے، سب اس کے لیے ہے جسے پڑھنے کا شوق ہو، جس کا مشغلہ یہی ہو۔ ہر چیز ایک کلک کے فاصلے پہ ہو اور آپ اس چیز سے محروم ہوں جو آپ کے خیالات کو چیلنج کرتی ہے؟ یہ بھی ایک قسم کی زبردستی ہے۔

آخر میں ایک بات اور، جو مجھے بہت لیٹ پتہ لگی۔ کتابیں زبردستی پڑھیں یا مرضی سے، لیکن انہیں خود پہ طاری نہ ہونے دیں۔ نارمل آدمی وہ ہیں جو ہمارے آس پاس ہوتے ہیں۔ ایک سبزی والا، ایک ہوٹل والا، ایک آفس بوائے، ایک کیمسڑی کا استاد، ایک رکشے والا، ایک سیاسی ورکر، یہ سب جیسے بات کرتے ہیں، ویسے بولیں، ان سے الگ دکھنے کی کوشش نہ کریں۔

الگ ہونے کا احساس پہلے پہلے بہت اچھا لگتا ہے لیکن اینڈ میں آپ اپنا بیڑہ خود غرق کر لیتے ہیں۔ تب آپ کہتے ہیں کتابوں نے آپ کو کھا لیا، آپ دنیا کے نہیں رہے۔ ایسا نہیں ہے، آپ نے خود اپنے آپ کو چبا چبا کے نگلا ہے۔ زبردستی کی تہذیب اور بناوٹی لہجے سے جان چھڑائیں۔ اپنے لوگوں میں جیئں، ان کے جیسا بن جیئں اور ڈھیر سارا جیئں۔ مولا خوش رکھے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ