ٹرمپ، مودی اور عمران زندہ باد

مودی کے سامنے عمران کو دوست قرار دینا آسان نہیں تھا مگر ٹرمپ نے یہ رسک لے لیا۔ بعض دانش ور اس کے پیچھے کسی پالیسی کا عندیہ دیتے ہیں جس کا ادراک صرف ان تین رہنماؤں کو ہے۔

مودی کی خواہش تھی کہ ٹرمپ کشمیر کا ذکر نہ کریں، پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز ٹھہرائیں اور متنازع شہریت کے قانون پر ہونے والے فسادات پر خاموش  رہیں۔ ٹرمپ نے ایک فرماں بردار بچے کی طرح وہ سب کچھ کیا اور بدلے میں تین ارب ڈالرز کے برابر دفاعی سودا حاصل کیا(تصاویر اے ایف پی)

ٹرمپ کے دورہِ بھارت سے جہاں مودی کی چھپن انچ کی چھاتی مزید پھول گئی ہے، وہیں عمران خان کی چھاتی کے زیروبم میڈیا پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ تو واپس چلے گئے مگر  بھارتی میڈیا اب تک سوگ میں ہے اور پاکستانی میڈیا شہنائی بجارہا ہے۔ دونوں ملک ٹرمپ سے خوش ہیں کہ انہوں نے اس نازک ترین دور میں دونوں رہنماؤں کا مان اور سمان رکھا۔

مودی کے سامنے عمران کو دوست قرار دینا آسان نہیں تھا مگر ٹرمپ نے یہ رسک لے لیا۔ بعض دانش ور اس کے پیچھے کسی پالیسی کا عندیہ دیتے ہیں، جس کا ادراک صرف ان تین رہنماؤں کو ہے۔

عالمی میڈیا سے وابستہ ایک تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پس پردہ کچھ اور چل رہا ہے، جس کے دوررس نتائج مرتب ہونے کا امکان ہے۔ شاید بھارت اتنا متاثر نہ ہو البتہ پاکستان پھر کسی شکنجے میں پھنسنے والا ہے۔

’امریکہ نے جہاں گذشتہ سال پانچ اگست کے کشمیر کے بارے میں بھارتی فیصلے کی خاموشی سے تائید کی ہے، وہیں ’آزاد کشمیر‘ پر بھارتی پالیسی پر اعتراض بھی نہیں کیا اور یہ پالیسی نہ صرف اس خطے کی تاریخ بلکہ جغرافیہ بھی تبدیل کر سکتی ہے جس کو پاکستان اب تک غیر سنجیدہ بیان تک ہی سمجھ بیٹھا ہے۔ مودی اور امت شاہ نے پارلیمان میں اس پالیسی کا اعلان کیا ہے اور وہ کوئی دوسرا ایڈوینچر ضرور کریں گے۔‘

اگر کوئی ٹرمپ کی دہلی پریس کانفرنس میں کشمیر مسئلے کے حل کی جانب کوئی امید رکھتا تھا تو وہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ پریس کانفرنس کا مقصد محض یہ پیغام دینا تھا کہ مودی کی ہندوتوا پالیسی سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں اور یہ داخلی مسئلہ ہے۔ بلکہ اس کی تائید میں ٹرمپ نے کہا کہ مودی خود مذہبی شخص ہیں اور مذہبی آزادی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ باہر 10 سے زائد مسلمان ہندو دہشت گردی کے ہتھے چڑھ گئے تھے جو بی جے پی کے ایک رہنما کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد شروع ہوئی۔

مرکزی اور ریاستی سرکاریں ان مناظر کو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ ہلاکتوں کی تعداد اب 30 سے زائد ہو چکی ہے۔

جہاں تک ٹرمپ اور مودی کی سوچ کا تعلق ہے دونوں میں زیادہ فرق نہیں، اگر ایک 22 کروڑ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے تو دوسرا امیگریشن کی آڑ میں مسلمانوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے۔ دونوں اپنی پالیسیوں پر گامزن ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔

ان دونوں کے بعض متنازع بیانات کے بارے میں یہ متفقہ رائے قائم ہورہی ہے کہ وہ جان بوجھ کر داخلی سطح پر کھلبلی مچا رہے ہیں، انسانی حقوق کی پاسداری ختم کررہے ہیں، اقلیتوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں، قومی ادارے کمزور  کرتے جا رہے ہیں، چونکہ عالمی سیاست میں کسی ایک لیڈر کا فقدان پیدا ہوا ہے لہذا اپنی داخلی ساخت کو بچانے اور انتخابات جیتنے کے لیے اب یہ رہنما ایک دوسرے کی پالیسیوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مودی بظاہر خود کو بہت طاقت ور سمجھ رہے ہیں مگر ان کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پہلی بار ہے جب امریکی صدر دہلی میں پریس کانفرنس میں ’اسلامی دہشت گردی‘ کا توڑ کرنے کا عہد کر رہے تھے تو باہرچند گز کے فاصلے پر ہندو دہشت گردی اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی۔

کٹر ہندو، مسلمانوں کی ماردھاڑ، قتل وغارت اور جائیداد لوٹنے میں مصروف عمل تھے اور بعض رپورٹوں کے مطابق سرکاری پولیس بلوایوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ صحافی روہت شرما کہتے ہیں:’مودی ’نمستے ٹرمپ‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور امت شاہ دہلی والوں کو حالیہ انتخابات میں ووٹ نہ ڈالنے کی سزا دے رہے تھے۔‘

مودی کٹر ہندو ہیں مگر ٹرمپ کی موجودگی میں وہ دوسرا گجرات نہیں چاہتے تھے۔ واضح رہے 2002 میں فرقہ وارانہ فسادات میں گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا اور مودی کے، جو اس دور میں  گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

مودی پاکستان کو ٹرمپ کے ذریعے سخت الفاظ میں پیغام دلوانا چاہتے تھے کہ وہ اسلامی دہشت گردی کا اڈہ ہے، گوکہ ٹرمپ نے بڑی احتیاط سے الفاظ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ طالبان کے ساتھ معاہدے کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں جو اگلے صدارتی انتخابات میں امریکی ووٹر کو بیچنے کے  لیے ایک انمول شے ہے۔

یہی وجہ کہ ٹرمپ نے ’اسلامی دہشت گردی‘ کے الفاظ کا بوجھ زبان سے ایسے پھینک دیا جیسے ان کو اس بات کا خوب احساس ہے کہ دہلی میں ہندو دہشت گردی کا نظارہ دیکھ کر وہ سب کے سامنے سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ چونکہ صدارتی انتخابات میں ایک فیصد ہندو ووٹ حاصل کرنے اور اسلحے کی فروخت کا بڑا سودا کرنے کا مسئلہ اہم تھا، لہٰذا مودی کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے دہلی کے شعلوں کو دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور ایسا صرف ٹرمپ ہی کرسکتے ہیں۔

ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کرنے کا ارادہ اس وقت کیا جب مودی نے مسلمانوں کے خلاف کئی ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے ملک کے 22 کروڑ مسلمانوں پر خوف اور دہشت طاری ہے۔ ٹرمپ نے دہلی آکر ان سارے فیصلوں کی نہ صرف تائید کی بلکہ دہلی میں مسلمانوں پر ہونےوالے دہشت گرد حملوں پر خاموشی اختیار کرکے ان کے حصے دار بھی بنے ہیں۔

مودی کو دہلی کی پرتشدد صورت حال سے ذرا سبکی تو ہوئی ہوگی مگر وہ اپنے ہندو ووٹروں میں اس کو بھی کیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور جس کا فائدہ بقول ایک بی جے پی رہنما بہار کے ریاستی انتخابات میں ضرور ہوگا۔ اگر پورا بھارت بھی آگ کی شعلوں میں لپٹ جائے گا تب بھی مودی اور ان کی پارٹی کو اس سے کوئی خطرہ نہیں اور ان کا اقتدار میں رہنا برقرار ہے۔ اس کے لیے انہوں نے عوام میں ہندتوا کی سوچ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

مودی کی خواہش تھی کہ ٹرمپ کشمیر کا ذکر نہ کریں، پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز ٹھہرائیں اور متنازع شہریت کے قانون پر ہونے والے فسادات پر خاموش رہیں۔ ٹرمپ نے ایک فرماں بردار بچے کی طرح وہ سب کچھ کیا اور بدلے میں تین ارب ڈالرز کے برابر دفاعی سودا حاصل کیا۔ چونکہ وہ ہر چیز کو تاجر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لہذا دنگے فساد یا مسلم کش پالسیاں ان کے لیے فروعی ہیں۔

دونوں رہنماؤں کے کچھ اصول بھی ہیں۔ مودی ہندوتوا سے باہر نہیں آنا چاہتے اور ٹرمپ ہر بات کو تجارت کی میزان سے تولتے ہیں۔ دونوں کی کیمسٹری میں کٹر پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ بظاہر دونوں اپنی گہری دوستی کا جو ڈرامہ کرتے ہیں ان کا اندرون ان کے چہرے پر کچھ اور بتاتا ہے بھلے ہی وہ کتنی بار ایک دوسرے کے گلے کیوں نہ ملیں۔

جو بھی ہو، امریکہ، بعض مغربی ممالک اور بعض مسلم مملکتیں بھارت کی مسلم مخالف پالیسیوں کے باوجود بھارت کے قریب ہیں اور مسلم مخالف پالیسیوں پر خاموش ہیں۔ اگر بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کرتا ہے تو اس کی امید کبھی نہ رکھیں کہ کوئی ملک پاکستان کے حق میں کھڑا ہوجائے گا۔

پاکستان کو ٹرمپ کے ’اچھے تعلقات‘ کے بیان پر خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی ضرورت نہیں۔ وہ افغانستان سے کسی طرح انخلا چاہتے ہیں جو پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد امریکی رویہ وہی ہوگا جو افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد رہا ہے۔

کاش پاکستان کی لیڈرشپ میں اس کو کیش کرنے کی صلاحیت ہوتی۔ اگر پاکستان اس وقت بھی امریکی سہارے یا مغربی بیساکھیوں سے کشمیر کا حل چاہتا ہے تو وہ پھر اپنی قوم سے ایک اور بھونڈا مذاق کررہا ہے، جو مدینے جیسی مملکت پاکستان کو زیب نہیں دیتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ