تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں اپنے رہنماؤں کی ہلاکتوں سے پریشان 

تحریک طالبان پاکستان کے حلقہ محسود نے اپنی ایک حالیہ کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرمیاں نہ کرنے کے باوجود پاکستان کی ایما پر افغان و امریکی افواج تحریک طالبان پاکستان کو نشانہ بنا رہی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں پر حملوں میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدے کے حوالے سے مذاکرات شروع ہوئے۔ (اے ایف پی)

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان کے مختلف علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تین اہم رہنماؤں شیخ خالد حقانی، قاری سیف اللہ یونس اور شہریار محسود کی پراسرار ہلاکتیں پاکستان کے سکیورٹی حلقوں میں ابھی تک زیر بحث ہیں۔

البتہ ان ہلاکتوں سے چند ہفتے قبل ٹی ٹی پی (حلقہ محسود) کی جانب سے بھی اپنی حالیہ شائع کردہ کتاب میں افغانستان کے صوبے پکتیکا میں تنظیم کے درجنوں رہنماؤں کی ہلاکتوں کا اعتراف کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ ’پاکستان کی ایما پر امریکی اور افغان سکیورٹی اداروں کی جانب سے ٹی ٹی پی کے رہنماؤں اور ہمددروں کو افغان صوبے میں ڈرون اور زمینی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن میں رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔‘

تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں پر حملوں میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدے کے حوالے سے مذاکرات شروع ہوئے جس میں پاکستان کی حمایت بھی شامل رہی۔

ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی کی ادارت میں ٹی ٹی پی حلقہ محسود کی سرگرمیوں کو ’انقلاب محسود‘ کے نام سے باقاعدگی سے کتابی شکل میں مرتب کیا جا رہا ہے جس کا تیسرا ایڈیشن حال ہی میں جاری کیا گیا ہے۔

عمرمیڈیا کی جانب سے شائع کردہ کتاب میں تاریخ اشاعت نہیں دی گئی مگر کتاب میں ماہ دسمبر 2019 میں ہونے والی ہلاکتوں کی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب جنوری 2020 میں شائع کی گئی ہے۔

حالیہ کتاب میں دیگر تنظیمی امور کے ساتھ ساتھ تفصیل میں افغانستان کے صوبے پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’دوران ہجرت افغانستان میں محسود مجاہدین پر امریکی چھاپوں کی روداد‘ کے عنوان سے مضمون میں لکھا گیا ہے کہ جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوتے ہی پاکستان طالبان کے شدت پسند اپنے خاندانوں سمیت افغانستان کے صوبے پکتیکا میں آباد ہوئے جہاں وہ زیادہ تر ضلع برمل میں مقیم تھے۔

کتاب میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ’تنظیم نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں مکمل ترک کی ہوئی ہیں مگر وہاں سے سرحد پار پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود پاکستانی فوج کو خوش کرنے کے لیے امریکی اور افغان سکیورٹی ادارے تنظیم کے رہنماؤں کو اپنا ہدف بنا رہی ہیں۔‘

ٹی ٹی پی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2019 میں اواخر کے ڈھائی ماہ امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے مسلسل نشانہ بنے رہے۔

خیال رہے کہ  سرحد پار سے ٹی ٹی پی کے حملوں کے بعد پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت سے سرحدی صوبوں میں ٹی ٹی پی کے قائم ٹھکانوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ گذشتہ سال اگست میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے باضابطہ طور پر افغان حکومت کو سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ٹی ٹی پی کے کیمپوں کے مقامات سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ افغان حکومت ان علاقوں میں اپنی افواج تعینات کریں۔  

ٹی ٹی پی نے کتاب میں گذشتہ دو سالوں میں اپنے رہنماؤں پر ہونے والے متعدد حملوں کی تفصیلات دی ہیں۔ ان میں ٹی ٹی پی کے نائب امیر خان سعید عرف سجنا کا اپنے گارڈ محمد آصف کا افغانستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت کا بھی ذکر ہے۔ ان کے حوالے سے کتاب میں  لکھا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ سجنا کی ڈی آئی خان میں حلوے کی دکان تھی جو افغانستان میں امریکی حملوں کے بعد طالبان تحریک سے وابستہ ہوئے۔

تحریک طالبان پاکستان حلقہ محسود کے اہم رہنما مولوی خاطر، جنہوں نے سجنا کی ہلاکت کے بعد حلقہ محسود کی امارت کاعہدہ لینے سے انکار کیا تھا، دسمبر 2019 میں قندوز میں ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والے ٹی ٹی پی حلقہ محسود کے دیگر اہم رہنماؤں میں حلقہ محسود کے کمانڈر انور شاہ، ملک شائی عرف مکین، حلقہ محسود کے رابطہ کار مولانا ضیا اللہ، حلقہ جاٹرائے کے کمانڈر عبدالرحمٰن اور عالم دین مولوی عالم شیر شامل تھے۔

کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اپریل 2019 میں  پکتیکا کے علاقے لموستائی میں ٹی ٹی پی کے ایک فدائین کیمپ پر بھی حملہ ہوا جس سے استشہادی فورس کے متعدد اراکین ہلاک اور زخمی ہوئے۔

کتاب میں 2018 میں صوبہ کنڑ میں ڈرون حملوں میں ٹی ٹی پی سربراہ مولانا فضل اللہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے امیر فاتح خان کی ہلاکتوں کو تنظیم کے لیے بڑا نقصان قرار دیا گیا ہے۔

پشاور میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد شمالی وزیرستان میں طالبان گروپوں کے ٹھکانے ختم ہوئے تو جنوبی اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان رہنما پکتیکا جبکہ سوات، باجوڑ اور دیگر قریبی علاقوں کے ٹی ٹی پی کے شدت پسند کنڑ منتقل ہوگئے تھے۔

ان کاکہنا ہے کہ افغانستان کے علاقوں میں ٹی ٹی پی رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد پاکستان میں بھی سرحد دہشت گردی کی واقعات میں نمایاں کمی رونما ہوئی ہے۔

 طالبان گروہوں پرگہری نظررکھنے والے اسلام اباد میں مقیم صحافی احسان اللہ ٹیپومحسود کاکہناہے کہ افغانستان میں اہم  رہنماؤں کی حالیہ ہلاکتوں سے ٹی ٹی پی مزید کمزورہورہی ہے۔  ان کے بقول پاکستان کی جانب سے بھی امریکی حکومت پردباؤ ڈالا جارہاہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی کے ٹھکانے ختم کریں اوریہی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں پر حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ ان کاکہناہے کہ دوسری جانب افغان طالبان نے  بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ٹی ٹی پی اورالقاعدہ کے رہنماؤں کو افغانستان سے پاکستان میں حملے نہ کرنے کا پیغام دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان