نیب لاہور میں میر شکیل الرحمان کی گرفتاری سے چند گھنٹے قبل میری نیب ہیڈکوارٹرز، اسلام آباد میں ایک میٹنگ تھی۔
میر شکیل الرحمان کو تین بجے نیب لاہور کے تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہونا تھا، میں تقریبا دو بجے نیب اسلام آباد پہنچا، گیٹ پر اپنا نام بتایا، مجھے گارڈ نے بیسمنٹ میں گاڑی پارک کرنے کا کہا جہاں چیئرمین نیب کی لینڈ کروزر بھی کھڑی تھی۔ میں نے اپنی گاڑی چیئرمین کی گاڑی کے بائیں طرف پارک کی ہی کہ گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور پوچھا کیا آپ عادل صاحب ہیں؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے مجھے ریسپشن سے ہو کر متعلقہ افسر کے پاس جانے کو کہا۔
ریسپشن پر بیٹھی خاتون نے مجھے لفٹ سے ہوتے ہوئے دوسرے فلور پر جانے کو کہا دوسرے فلور پر جونہی لفٹ رکی تو باہر انگریزی کوٹ پتلون پہنے نیب کے بندے نے میرا نام پکارتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور مجھے جس شخصیت سے ملنا تھا اس کے کمرے تک چھوڑ کر آیا۔ لفٹ کے باہر نیب کے اس شخص کو پا کر میرا ذہن مجھے احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطوں میں لے گیا، جہاں ہم رپورٹرز نیب کے تفتیشی افسران سے کیس پر معلومات نکالنے کے لیے تگ ودو کرتے ہیں۔ مگر وہ ہچکچاتے اور جان چھڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں یہ شخص خود مہربان تھا۔ کمرے میں پہنچ کر نیب حکام کے دو بدو تھا۔ مجھے جس کپ میں کافی پلائی گئی اس پر بھی ’نیب کا ایمان کرپشن فری پاکستان‘ لکھا تھا۔
میر شکیل الرحمان سے متعلق ڈی جی نیب لاہور سے ہیڈکوارٹرز کی گفتگو بھی مجھے اس دوران دکھائی گئی۔ دو گھنٹے تک مسلسل ایک کرسی پر بیٹھے فائلز میرے سامنےسے گزر رہیں تھیں۔ کچھ کو تازہ دم پرنٹ کیا گیا، کچھ دستاویزات جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو قواعد و ضوابط کے برعکس الاٹ کئے گئے مکانات کی تفصیلات میری نظر سے گزریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں حیران تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے افسران، ماتحت عدالتوں کے ججز سب نے رولز کو بالائے طاق رکھ کر مبینہ طور پر مکان الاٹ کروائے۔ اس کے بعد مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کا نیب کو لکھا گیا خط دیکھایا گیا۔ اکرم درانی گذشتہ دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے ہاوسنگ تھے۔ ججز کو مکانات کی الاٹمنٹ کے کیس میں ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین نیب سے اکرم درانی کے کیس کے ریکارڈ پر نظرثانی کے احکامات بھی صادر کیے۔
نیب یہ سمجھتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، چیئرمین نیب کی گرفتاری کے اختیارات پر عدالتی سوالات ان الاٹمنٹ کی کڑی ہیں۔ تاہم چیف جسٹس اس کیس کی سماعت کے دوران بھی کہہ چکے ہیں کہ الاٹمنٹ کو غیر قانونی کیسے کہا جاسکتا ہے؟
مجھے ایک اور فائل دکھائی گئی۔ یہ ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس تھا جسے منظور کرانے کے لیے ابھی اسے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ میں زیر بحث لانا باقی تھا۔
اسی دوران میر شکیل الرحمان بھی نیب لاہور میں گرفتار ہو چکے تھے۔ دو گھنٹے کی طویل میٹنگ کے بعد مجھے رخصت کیا گیا۔ نیب کے نئے دفتر سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی نئی عمارت کا نظارہ قابل دید ہے۔