آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں دنیا یقیناً کرونا وائرس کی وبا پر قابو پا لے گی لیکن جس روز پہلا کرونا فری سورج طلوع ہو گا اس کی روشنی میں جو دنیا دکھائی دے گی وہ ایسی نہیں ہو گی جیسی پہلے ہوا کرتی تھی۔
26 فروری کو پاکستان میں پہلے کرونا وائرس کیس کی تصدیق ہوئی اور 24 مارچ تک یہ تعداد 900 تک پہنچ چکی تھی جبکہ وزیراعظم کے مشیر ندیم افضل چن ایک پرائیویٹ آڈیو پیغام میں حکومت پر اعداد و شمار چھپانے کا الزام لگا رہے ہیں اور متاثرین کی تعداد ہزاروں میں بتا رہے ہیں۔
اس کی ایک مثال تو گلگت میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے اس ڈاکٹر کی بھی ہے جس کی موت کے 48 گھنٹے بعد میڈیا کو بتایا گیا کہ مذکورہ ڈاکٹر کی ہلاکت کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے سبب ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے پر بھارت میں پہلا کیس 30 جنوری کو سامنے آیا مگر بھارتی حکومت کے بر وقت اقدامات کی وجہ سے وہاں اس وقت یہ تعداد 527 تک پہنچی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے جن ممالک کے اقدامات کو مثالی قرار دیا ان میں جنوبی کوریا، سنگا پور اور بھارت شامل ہیں۔ پاکستان کا کرونا وائرس کے حوالے سے ردِعمل کسی طور پر بھی مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ایران میں اگر شروع میں ہی یہ وبا منظر عام پر آ جاتی تو وہ زائرین جو ایران میں تھے انہیں نہ صرف بچایا جا سکتا تھا بلکہ مزید زائرین کا داخلہ روکا جا سکتا تھا مگر جو غلطی ایران کی مذہبی قیادت سے ہوئی وہی پاکستان کی جمہوری قیادت نے بھی دہرائی۔
پہلے تو تفتان سرحد پر زائرین کی صحیح صورت حال بتائی نہیں گئی اور پھر اس قدر غیر ذمہ داری کا مظارہ کیا گیا کہ اگر ایران سے دس فیصد زائرین یہ وائرس لے کر آئے تھے تو جس طرح انہیں نام نہاد ’قرنطینہ‘ میں رکھا گیا اس سے 60 فیصد میں یہ وائرس پھیل گیا۔
قرنطینہ سے لوگوں کو سفارش اور رشوت پر نکالا بھی جاتا رہا جو جا کر شہروں میں پھیلتے گئے۔ اس کی ایک بدترین مثال گلگت کا ضلع نگر ہے جہاں کے باشندوں میں یہ وائرس اس طرح پھیل چکا ہے کہ یہ آج کا منی ووہان لگتا ہے۔
فی الحال حزبِ اختلاف نے کرونا وائرس کے معاملے پر سیاست کرنے کی کوشش نہیں کی مگر اس کے باوجود حکومت کی ساکھ میں کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم اپنے آخری خطاب میں بھی لاک ڈاؤن سے انکار کرتے رہے مگر اس کے چند گھنٹے بعد عملاً پورے ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔
یقیناً عمران خان کے پیش نظر معیشت تھی لیکن کیا ایسے حالات میں جب زندگی اور معیشت میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟
کرونا وائرس نے جہاں ہمارے داخلی نظام اور فیصلہ سازی کی قوت کو بے نقاب کیا ہے وہاں صحت کے ڈھانچے کی زبوں حالی کو بھی سامنے لایا ہے۔ اگرچہ پوری دنیا میں ہی سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت صحت کا شعبہ نجی اداروں کے پاس ہے یہی وجہ ہے کہ آج اس وبا سے نمٹنے کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں کے پاس بھی مطلوبہ تعداد میں وینٹی لیٹر موجود نہیں ہیں۔
صحت کا ڈھانچہ مضبوط بنانا ہو گا
جب یہ وبا گزر جائے گی تو دنیا میں صحت کے حوالے سے بھی ایف اے ٹی ایف جیسے سخت قواعد و ضوابط بنیں گے اور ترقی پذیرملکوں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ صحت کا شعبہ مضبوط بنائیں۔ پاکستان میں گذشتہ سال ڈینگی کی وبا نے بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلائی تھی مگر حکومت نے اس کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی تھی۔ آج کے بعد ایسا نہیں ہو گا جو حکومتیں وباؤں پر کنٹرول نہیں کر سکیں گی ان پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کی جا سکیں گی جس طرح ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری یا پھر انسانی کی حقوق کی خلاف ورزی پر لگائی جاتی ہیں۔
فوج کا نیا چیلنج
آرٹیکل 245 کے تحت اس وقت ملک کا انتظام عملاً فوج کے پاس ہے۔ عموماً فوج کو یہ اختیارات امن و امان کی مخدوش صورت حال میں سونپے جاتے ہیں مگر اس مرتبہ چیلنج بالکل مختلف نوعیت کا ہے۔ یہ ایک وبا ہے جس کا شکار وہ لوگ زیادہ ہو سکتے ہیں جو گھروں سے باہر ہیں۔
کیا فوج جیسے اداروں کو ایسے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بیرکوں اور سرحدوں سے لا کر اس کے لیے خطرہ بڑھایا جا سکتا ہے؟ اس وبا کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعداد اور استعداد کو بڑھانے کے بارے میں بھی ایک لائحہ عمل دیا جانا چاہیے۔
تعلیمی نظام اوور ہال کرنا ہو گا
اس وقت پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں۔ کرونا وائرس کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہ بھی ہو گا کہ ان بچوں کا نصاب کیسے پورا کیا جائے یا جن کے امتحانات نہیں ہو سکے ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔
اگر ہم پھر انہی روایتی طریقوں میں لگ گئے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم نے اس بحران سے کچھ نہیں سیکھا۔ اب ہمیں غیر روایتی طریقوں کی جانب جانا ہو گا۔ پاکستان کے سات کروڑ لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ کیا اس کو آن لائن ایجوکیشن کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا؟
اسی طرح ورچول ایجوکیشن کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے اس سے ہماری سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ بھی بڑی حد تک کم ہو جائے گا۔
مزدور کسان کا ہاتھ تھامنا ہو گا
اس وقت پاکستان کی کل لیبر فورس پانچ کروڑ 72 لاکھ پر مشتمل ہے جس میں سے 43 فیصد کا تعلق زراعت سے ہے جس کا ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں ہے۔
20.3 فیصد جس کا تعلق صنعت سے ہے صرف اس کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے جبکہ 36.6 فیصد دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں میں سے بھی بہت محدود تعداد کا انفرادی ڈیٹا حکومت کے پاس ہے۔ اس لیے اگر کوئی ایسی ہنگامی صورت حال پیدا ہو جائے تو حکومت کے لیے سب سے مشکل یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ کن لوگوں کے چولہے جلانے کے لیے حکومت کی امداد کی ضرورت ہو گی اور وہ کیسے دی جائے گی؟
بےنظیر انکم سپورٹ فنڈ میں رجسٹرڈ لوگوں کی تعداد 52 لاکھ ہے جن تک امداد پہنچانے کا ایک طریقہ کار بہرحال موجود ہے۔ اس لیے حکومت کو کوئی ایسا طریقہ کار بھی اپنانا پڑے گا جس کے ذریعے وہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں متاثرین تک پہنچ سکے۔
آفات سے نمٹنے کے اداروں پر نظرِ ثانی
قدرتی آفات اور وباؤں سے نمٹنے کے ادارے تو 2005 کے زلزلے کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر بنا دیے گئے مگر ابھی تک وہ موثر ثابت نہیں ہو سکے جس کی ایک بڑی مثال تفتان میں ہونے والی بد نظمی ہے جس نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرا دیا۔ اس وبا سے ایک سبق یہ بھی ملا ہے کہ ہمیں ان اداروں کو از سر نو منظم کرنے کی ضروت ہو گی۔
کرونا وائرس سے پاکستان کی معیشت کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کا ابتدائی تخمینہ ایک کھرب 30 ارب روپیہ لگایا گیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس صورت حال سے دنیا بھر کی معیشتیں دوچار ہے اس لیے یقیناً پاکستان کو عالمی اداروں کو کی جانے والی ادائگیوں میں چھوٹ ملنے کا بھی امکان ہے۔
تیل کی مانگ میں کمی کی وجہ سے تیل کی کم ہونے والی قیمتوں سے بھی اسے فائدہ ہو گا۔
کرونا وائرس کے بعد ایک نئی دنیا کا ظہور ہونے جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی جنگوں کو ختم کرنے اور تنازعات کے حل پر زور دیا ہے۔ دنیا اب کسی مسئلے کو کسی ملک کا اندرونی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔
ووہان سے جو سبق ملا ہے وہ گلوبلائزیشن سے بھی آگے کا ہے۔ دنیا جب لاک ڈاؤن سے نکلے گی تو وہ ڈری اور سہمی ہوئی نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ پر اعتماد اور مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہو گی۔
اس سلسلے میں ہمیں پوری طرح اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا۔ بعد از کرونا کی دنیا ناکام ریاستوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی غلطی نہیں کرے گی۔