کیا پاکستان میں گرمی آنے سے کرونا وائرس ختم ہو جائے گا؟

دو الگ الگ تحقیقات میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سرد موسم میں زیادہ پنپتا ہے، اس تحقیق سے ہم کیا امید باندھ سکتے ہیں؟

کرونا کی وبا سرد ملکوں میں زیادہ شدت سے سامنے آئی ہے (تصویر:روئٹرز)

یہ غالباً ہمارے خطے کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ لوگوں کو بہار کے جلد از جلد ختم ہونے اور گرمیوں کی آمد کا شدت سے انتظار ہے۔

اس کی وجہ یہ امید ہے کہ شاید ہمارے علاقے کی چلچلاتی گرمیاں کرونا (کورونا) وائرس کے سونامی کے آگے بند باندھ سکیں۔

ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ گرمیاں آتے ہی نزلہ، زکام اور فلو کی آفتیں بڑی حد تک ختم ہو جاتی ہے اور جوں ہی سردیاں شروع ہوتی ہیں، یہ بیماریاں دوبارہ سر اٹھانے لگتی ہیں۔ لیکن کیا کرونا کی وبا کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؟

اس سلسلے میں امریکہ کی میری لینڈ یونیورسٹی کے گلوبل وائرس نیٹ ورک کے سائنس دانوں نے ایرانی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر جدید ترین موسمیاتی ماڈل استعمال کیے اور دیکھا کہ کو وڈ 19 کا پھیلاؤ کس حد تک موسم پر منحصر ہے۔

یہ تحقیق سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک کے پلیٹ فارم پر شائع ہوئی ہے جو کرونا وائرس کے بارے میں جاری تحقیقات کے ابتدائی مراحل کے نتائج شائع کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک ہی متاثرہ پٹی

اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کرونا وائرس دنیا کے نقشے پر 30 ڈگری اور 50 ڈگری عرض بلد کی پتلی سی پٹی پر زیادہ پھیلا ہے۔ اس پٹی کا درجۂ حرارت پانچ ڈگری سے لے کر 11 ڈگری سیلسیئس تک ہے اور یہاں ہوا میں نمی کا تناسب 47 سے 79 فیصد تک ہے۔

کرونا سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے، جن میں چین کا ہوبے صوبہ، جنوبی کوریا، ایران، اٹلی اور فرانس، شامل ہیں، قریب قریب ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں۔

مقالہ نگاروں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حالیہ کرونا وائرس بھی دوسرے کرونا وائرسوں کی طرح موسمی وائرس ہے۔

مقالہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اس سے قبل سارس اور مرس کے وائرس بھی موسمی تھے اور حالیہ کرونا وائرس یعنی سارس کو وی 2 ان کا قریبی رشتے دار ہے۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مقالہ نگاروں نے لکھا ہے  کہ اس موسم میں وائرس ممکنہ طور پر زیادہ دیر تک فعال رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سرد اور خشک موسم میں منہ سے نکلنے والے مہین قطرے (droplets) زیادہ مستحکم رہتے ہیں، جن کے ذریعے وائرس ایک شخص سے دوسرے کو پہنچتا ہے، اس کے علاوہ اس موسم میں ناک اور گلے کے اندر کی جلد کی حالت ایسی ہوتی ہے جس کے اندر وائرس کو پنپنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔

مقالہ نگاروں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ دنیا کے شمالی اور زیادہ ٹھنڈے حصوں میں بھی کرونا وائرس زیادہ پنجے نہیں جما پایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وائرس کے پھلنے پھولنے کا ایک کم سے کم درجۂ حرارت بھی ہے جس سے نیچے جا کر یہ زیادہ موثر نہیں رہتا۔

کرونا وائرس نے جس طرح دنیا کو جکڑا ہے، اس کے بعد اس پر بےتحاشا تحقیق کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے موقر تحقیقی گڑھ ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بھی کرونا وائرس پر موسم کے اثر کے بارے میں ملتی جلتی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق میں حصہ لینے والے سائنس دانوں قاسم بخاری اور یوسف جمیل نے کرونا وائرس کی وبا کا عالمی جائزہ لے کر تقریباً وہی نتیجہ نکالا جو اوپر بیان ہو چکا ہے۔

قاسم بخاری اور یوسف جمیل نے اپنے ریسرچ پیپر میں لکھا ہے کہ کرونا وائرس کے 90 فیصد کیس ان خطوں میں سامنے آئے ہیں جن کا درجۃ حرارت اس موسم میں تین ڈگری سے لے کر 17 ڈگری سیلسیئس رہتا ہے اور یہاں ہوا میں نمی کا تناسب چار سے نو گرام فی مکعب میٹر کے درمیان ہے۔

اس مقالے کے مطابق امریکہ میں بھی یہی پیٹرن سامنے آیا ہے اور کرونا وائرس کا پھیلاؤ شمالی اور ٹھنڈی ریاستوں میں زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ملک جہاں کا اوسط درجۂ حرارت 18 ڈگری سے اوپر ہے، وہاں کو وڈ 19 کے صرف چھ فیصد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

سائنس دانوں نے لکھا ہے کہ نسبتاً گرم موسم کے علاوہ ہوا میں نمی بھی ممکنہ طور پر کردار ادا کرتی ہے کیوں کہ کو وڈ 19 کا پھیلاؤ نسبتاً خشک علاقوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گرم موسم اور ہوا میں زیادہ نمی وائرس پر کیسے اثرانداز ہوتی ہیں؟

امریکہ کی وانڈربیلٹ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ولیم شافنر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ’لائیو سائنس‘ کو بتایا کہ اگر ہم وائرس کو خوردبین میں دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے گرد پانی کا ایک انتہائی باریک خول سا ہوتا ہے۔ بیمار شخص کے منہ سے نکلنے والے وائرس کے قطرے فوراً ہی خشک ہو جاتے ہیں اور وائرس ہوا میں تیرتے ہوئے ایک شخص سے دوسرے تک پہنچ جاتا ہے۔

اس کے مقابلے پر گرم اور مرطوب موسم میں پانی کا قطرہ جلدی خشک نہیں ہوتا اور بھاری ہونے کی وجہ سے بیمار شخص سے نکل کر فوری طور پر زمین پر گر جاتا ہے اور سامنے بیٹھے شخص کے منہ اور ناک میں داخل ہو کر اسے بیمار نہیں کر پاتا۔

جیسے گھی گرمیوں میں پگھل جاتا ہے

ایک اور پہلو یہ ہے کہ حالیہ کرونا وائرس کا باہری خول چربی کا بنا ہوتا ہے۔ جس طرح سردیوں میں گھی جما رہتا ہے لیکن گرمیوں میں مائع بن جاتا ہے، اسی طرح گرم موسم میں وائرس کے بیرونی خول کی چربی پگھل جاتی ہے اور اس کا انجر پنجر بکھر جاتا ہے۔ یوں یہ انسانوں کو بیمار کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے جس جس وائرس کا بیرونی خول چربی کا بنا ہے، وہ سب موسمی ہوتے ہیں، یعنی سرد موسم میں زیادہ پروان چڑھتے ہیں جب کہ گرمی ان کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ گرمی سے کرونا وائرس جڑ سے تو نہیں اکھڑ جائے گا اور خدشہ ہے کہ اگلی سردیوں میں یہ دوبارہ حملہ آور ہو گا، لیکن کم از کم اس سے اتنا تو ہو گا کہ ملکوں کے صحت کے نظام پر زبردست دباؤ وقتی طور پر ٹل جائے گا اور وہ سانس لے کر اگلی سردیوں میں آنے والی متوقع وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں کر سکیں گے۔

یہ دونوں تحقیقات خوش آئند سہی، تاہم دوسرے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ انکشافات ابھی ابتدائی نوعیت کے ہیں اس لیے فی الحال حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کرونا وائرس گرمی سے کس حد تک متاثر ہو گا۔ چونکہ یہ وائرس بالکل نیا ہے، اس لیے اس کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی تاریخ میں پہلی بار اتنی شدید گرمیوں کی آمد کا بےصبری سے انتظار چھوڑ دیں جن میں گھی تو رہا ایک طرف، سڑکوں کا تارکول تک پگھل جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت