کرونا کے بعد کاش!

یہ آفت انسانوں کو ایک کھلا پیغام ہے کہ زمین پر اکڑ اکڑ کر مت چل ورنہ اے حضرت انسان تمہاری ساری اوقات ہی یہی ہے کہ تم اپنی ساری ٹیکنالوجی اور نت نئی سائنسی ایجادات کے باوجود ایک نظر نہ آنے والی انتہائی چھوٹی سی جراثیم سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

جنوبی کوریا میں ماحولیاتی کارکن احتجاج کرتے ہوئے کرونا کا روپ دھارے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

کرہ ارض پر انسانی تخلیق کے ساتھ ہی دنیا میں جنگوں اور تشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کی ابتدا حضرت آدم ؑ کے گھر سے ہوئی اورآج تک جنگوں کے یہ منحوس سائے اسی کرہ ارض پر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔

تاریخ انسانی پر ایک سرسری نطر دوڑائی جائے توآج سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو وہاں بھی جنگل کا قانون رائج تھا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق کمزور لوگوں کو طاقتور لوگوں کے ماتحت رہنا پڑتا تھا۔

رفتہ رفتہ جب انسان غاروں سے نکل کر شہروں کی طرف آیا اور ایک عمرانی معاہدے کے تحت اپنا سر تسلیم ایک بادشاہ کے سامنے اس شرط پر خم کیا کہ وہ ان کے مال، جائیداد اور دوسرے اسباب کی حفاطت کی پوری ذمہ داری لیں گے۔ لیکن اس مہذب دنیا میں بھی لوگوں کو چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے سفاک لوگوں سے واسطہ پڑا جو لوگوں کے سروں کے مینار کھڑا کرنے  اور انسانی خون کے سیلاب کو دیکھنے میں خوشی پاتے تھے۔ اس کے بعد حضرت انسان نے تاریخ کی دو بد ترین جنگیں بھی دیکھیں جس سے خود انسانیت شرما گئی۔ پولینڈ کے جنوبی شہر کریکو میں اب بھی موجود عقوبت خانوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے جوتے، بال اور گیس کے چیمبر اس بھیانک کہانی کے کرداروں کا پتہ دیتے ہیں۔

جنگوں اور تشدد کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کو دیکھ کر دنیا کو خیال آیا کہ انسانیت کے ہاتھوں انسانیت کے خون کو کس طرح بہنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے پوری دنیا کے حکمران سر جوڑکر بیٹھ گئے اور آخرکار لیگ آف نیشن اور پھر اقوام متحدہ کے ادارے کی صورت میں جنگوں سے نجات کی امید نطر آئی۔ لیکن جلد ہی دنیا نے محسوس کیا کہ یہ قدم شاید انسانیت کو محفوظ کرنے کے لیے نہیں بلکہ دنیا پر مخصوص ملکوں کی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اٹھایاگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھی دنیا نے سکھ کا سانس لیا ہی نہیں تھا کہ دوقطبی دنیا میں امریکہ بہادر اور سویت یونین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوئی۔

تقریبا تین دیہائی تک چلنے والی یہ جنگ اسی کی دہائی میں سویت یونین کے سقوط پر ختم ہوئی۔ آج تک مغربی استعماری قوتوں خصوصا امریکہ بہادر نے دنیا کے تقریبا ہر حصے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے یا تو براہ راست جنگوں میں حصہ لیا تا اپنی پراکسیز کے ذریعے اپنی سیاسی اور فوجی قوت کا سکہ بٹھایا۔ ایران، عراق، لیبیا، افغانستان، شام، لبنان اور فلسطین اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کرہ ارض نے انسانی تشدد کی جو بدترین شکلیں دیکھی ہیں شاید آج ان کے انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ اس کائنات کا وہ حصہ جسے ہم زمین کے نام سے یاد کرتے ہیں شاید تھوڑی دیر کی رخصت لے کر آرام کرنا چاہتی ہے۔ دنیا کے ہنگاموں سے پرے، لوگوں کوگھر بٹھا کر، چین وسکون کے چند لمحے گزارنا چاہتی ہے۔ ٹرانسپورٹ بند ہے، کارخانے بند ہیں، بازار ویران ہیں، سڑکیں سنسان ہیں، پارک، شہر شہر، قریہ قریہ خالی ہیں، لوگوں کو کھانے کے برتنوں، سونے کے بیڈز، کھانے پینے، پہننے کی اشیا حتی کہ اپنے بیوی بچوں سے ڈر لگنے لگا ہے۔

لوگ گھروں تک محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور اس انتظار میں بیٹھے گھبراہٹ کے عالم میں مصیبت کی یہ گھڑیاں اس امید کے ساتھ گزار رہے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو انسانیت پر رحم آ جائے اور یہ بلا کسی نہ کسی طریقے سے ٹل جائے۔

یہ آفت انسانوں کو ایک کھلا پیغام ہے کہ زمین پر اکڑ اکڑ کر مت چل ورنہ اے حضرت انسان تمہاری ساری اوقات ہی یہی ہے کہ تم اپنی ساری ٹیکنالوجی اور نت نئی سائنسی ایجادات کے باوجود ایک نظر نہ آنے والی انتہائی چھوٹی سی جراثیم سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

آج کورونا وائرس دنیا کے 193 ملکوں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ ہوسکتا ہے اس وبا کے بخیر وعافیت ٹل جانے کے بعد دنیا میں ایک نیا آرڈر سامنے آئے۔ جس طرح پوری دنیا آج اپنے مشترکہ دشمن کے پیچھے متحد ہو کر لڑ رہی ہے، شاید اسی اتحاد واتفاق کا مطاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے حکمرانوں کو انسانیت پر رحم آجائے اور انسانوں کو انسانوں کے خلاف  لڑانے کی بجائے غربت، افلاس، بے روزگاری، دہشت گردی اور مختلف بیماریوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور ایک نئی دنیا تعمیر کریں۔ کاش!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ