حکومتی وزرا کی فوج کرونا وائرس پہ کیا کر رہی ہے؟ چیف جسٹس

سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے کہا کہ 'حکومت سے چند سوالات پوچھے لیکن انہوں نے وینٹی لیٹرز کے اعداد و شمار ہمارے سامنے رکھ دیے اور تسلی بخش جواب نہیں دیے۔'

(فائل فوٹو)

کرونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد اپنے پہلے ازخود نوٹس میں حکومت کی کارکردگی، کابینہ میں ردوبدل کے فیصلوں پر کافی برہم دکھائی دیے۔ عدالت نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائےصحت ظفر مرزا کی کاکردگی پر مطمئن نہیں ہیں اُن کو ہٹانے کا حکم دیں گے، تاہم سماعت کے اختتام پر لکھوائے گئے عدالتی حکم نامے میں انہیں ہٹانے کا حکم شامل نہیں تھا۔

کرونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق وفاق کی اپیل کی سماعت کے دوران گذشتہ ہفتے چیف جسٹس نے حکومتی اقدامات کے حوالے سے ازخود نوٹس لیا اور چیمبر میں اٹارنی جنرل سے سوالات پوچھے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے حکومت کے کیا اقدامات ہیں؟ لاک ڈاؤن کی صورت میں عوام کے لیے کیا پلان تیار کیا گیا ہے؟ ڈاکٹرز کتنے ہیں وینٹی لیٹرز کتنے ہیں؟ کیا ٹیسٹنگ کِٹس وافر مقدار میں موجود ہیں؟

ان سوالات کے جواب میں تمام صوبوں نے رپورٹس جمع کروا دیں کہ کس صوبے کے پاس سرکاری سطح پر کتنے وینٹی لیٹرز ہیں۔

پیر کے روز ہونے والی سماعت میں تمام صوبوں کے اٹارنی جنرلز وڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں حاضر تھے جبکہ کمرہ عدالت 80 فیصد بھرا ہوا تھا تاہم کمرہ عدالت میں موجود وکلا، پولیس اہلکاروں، عدالتی عملہ اور صحافیوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔ لیکن ججز نے ماسک نہیں پہنے تھے۔

سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے کہا کہ 'حکومت سے چند سوالات پوچھے لیکن انہوں نے وینٹی لیٹرز کے اعداد و شمار ہمارے سامنے رکھ دیے اور تسلی بخش جواب نہیں دیے۔'

چیف جسٹس نے کہا: 'حکومت کے اتنے زیادہ وزرا پر مشتمل فوج کیا کر رہی ہے؟ قانون ساز ادارے کام کیوں نہیں کر رہے؟حکومت کی جانب سے بریفنگ میں ایک سوال کا جواب بھی نہیں ملا۔ لوگوں کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ ابھی تک میٹنگ میٹنگ کھیلنے اور دعووں کے علاوہ ہوا ہی کیا ہے؟ سب کچھ بند کر دیا گیا یہ نہیں سوچا گیا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ مشیروں اور معاونین خصوصی نے پوری کابینہ کو قابو کیا ہوا ہے۔ ایک وزارت میں وفاقی وزیر، وزیرمملکت، معاون خصوصی اور مشیر سب معاملات چلا رہے ہیں۔ وزرا کی فوج پر اتنا پیسہ کیوں خرچ ہو رہا ہے؟ آئین کے تحت کابینہ 49 ارکان پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم کو کچھ پتہ بھی ہے کہ نہیں؟'

چیف جسٹس کی جانب سے تابڑ توڑ سوالات پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب دیا کہ 'تمام معاملات پر وزیراعظم آن بورڈ ہیں۔ سب ملکوں کی کابینہ ہوتی ہے۔'

چیف جسٹس نے کہا کہ 'وزیراعظم نے مبینہ طور پر کرپٹ لوگ مشیر رکھے ہوئے ہیں۔' ان ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ ایسی باتیں نہ کریں آپ کے ایسے بیان سے اثر پڑتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے تصیح کی کہ انہوں نے مبینہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت حکومت کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ عدالت صرف یہ چاہتی ہے کہ تمام معاملات حل ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'عدالت نے چند سوالات پوچھے تھے لیکن ظفر مرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔ عدالت ظفر مرزا سے مطمئن نہیں اس لیے ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹا دیا جائے۔' اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ اس موقع پر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانا تباہ کن ہو گا اس لیے یہ معاملہ وفاق پر چھوڑ دیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'ظفر مرزا کے خلاف کس معاملےکی تحقیقات جاری ہیں۔' اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایک شہری نے ایف آئی اے میں درخواست دی تھی کہ انہوں نےمیڈیکل سامان بغیر ڈیوٹی چین بھجوایا۔ اس معاملے پر انکوائری جاری ہے۔ لیکن ظفر مرزا نے جو بھی کیا حکومت کی اجازت سے کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'آپ ھر کام حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں۔ پہلے آپ نے حکومت کی اجازت سےآٹا بھیجا پھر آپ نے حکومت کی اجازت سے چینی باہر بھیجی۔ پھر اب آپ میڈیکل آلات حکومت کی اجازت سے امپورٹ کریں گے۔ ملک کی صنعتیں بند ہوگئی ہیں حکومت کو اس کا ادراک نہیں۔ صوبائی حکومتیں کچھ اور کر رہی ہیں مرکز میں کچھ اور کام کر رہا ہے۔' چیف جسٹس سندھ کی حکومت پر بھی اظہار برہمی کیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا کہ ایسا آٹھارویں ترمیم کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے عدالت سیاسی لوگوں کے بیانات پر نہ جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنہ صلاحیت کے مطابق تدابیر اختیار کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کے لیے صدر مملکت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس قاضی امین الدین نے کہا کہ 'ہم کسی پر تنقید کر رہے ہیں اور نہ حوصلہ شکنی لیکن حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔'

جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی ریمارکس دیے کہ 'لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں جن کا ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں۔ حکومت کو خود عوام تک رسائی یقینی بنانا ہوگی۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر اجلاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ مشکل حالات میں حکومت ڈلیور نہیں کر پائی تو کیا فائدہ؟'

چیف جسٹس ریمارکس دیے کہ 'حکومت کی سمت کیا ہے؟ ہم جا کدھر کو رہے ہیں۔ حکومت کر کیا رہی ہے؟' انہوں نے کہا کہ 'مشیروں اور معاونین کی فوج سے کچھ نہیں ہونا۔ حکومتی وزرا اور مشیروں کے فوج در فوج ہے لیکن کام کچھ نہیں۔وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شق و شبہ نہیں۔ وزیراعظم کے پاس صلاحیت ہے کہ کام کے دس بندوں کا انتخاب کر سکیں۔ ذرا سی مشکل آتے ہی ادھر کا مہرا اُدھر لگا دیا جاتا ہے۔ شاید یہ معلوم نہیں کہ اگلا مہرا پہلے ہی لگائے جانے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔'

دو گھنٹے جاری رہنے والی سماعت میں عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاعی مشروط سفری پابندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے ہدایات دیں کہ تمام پیرا میڈیک عملے کو خفاظتی کِٹس مہیا کی جائیں اور تمام صوبے کرونا وائرس کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر تفصیلی رپورٹ جمع کروائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان