کوارنٹین اور آئیسولیشن میں فرق نہ کرنے سے کیا نقصان ہو رہا ہے؟

خیبر پختونخوا کے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے مطابق موجودہ وقت میں سب سے بڑی غلطی آئیسولیشن وارڈ اور قرنطینہ مراکز میں فرق نہ کرنا ہے۔

لاہور کے ایکسپو سینٹر میں قائم ایک عارضی آئیسولیشن مرکز (اے ایف پی فائل)

پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ آنے کے بعد ایک عام آدمی کے ذہن میں بھی یہ خیال پنپ رہا ہے کہ آخر یہ تعداد بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟ اور آخر کیوں اس وائرس سے نجات کا کوئی سرا نہیں مل رہا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق بعض اہم نکات کی طرف توجہ نہ دینے سے بھی یہ  کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، تاہم اگر بروقت اس کا خیال  رکھا جائے تو اس وبا سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔

خیبر پختونخوا کے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر  ضیاالحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ وقت میں سب سے بڑی غلطی آئیسولیشن وارڈ اور قرنطینہ مراکز میں فرق نہ کرنا ہے، اور اس حوالے سے بڑی کنفیوژن پائی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہی غلطی کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔  دونوں کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے قطعئی مختلف مفہوم رکھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر  ضیاالحق کے مطابق: ’اگر آئیسولیشن کا مریض کوارنٹین میں ڈال دیا جائے  تو یہ ایک فاش غلطی ہوگی۔ دراصل کوارنٹین میں آئیسولیشن وارڈ سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

کوارنٹین یا قرنطینہ مرکز

ڈاکٹر ضیا کے مطابق کوارنٹین وہ جگہ ہوتی ہے جہاں بیماری کے سسپکٹڈ  اور پرابیبل (یعنی مشتبہ) مریضوں کو علیحدگی میں رکھا جاتا ہے۔ ’سسپکٹڈ سے مراد وہ مریض ہیں جن کے بارے میں  ڈاکٹروں کا خیال ہو کہ شائد  یہ شخص کررونا وائرس سے متاثر ہوا ہو۔ یعنی اس میں یقنی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری جانب پرابیبل سے مراد وہ مریض ہوتے ہیں جن کے متعلق ایک ڈاکٹر کافی حد تک قائل ہو چکا ہو کہ یہ کورونا وائرس کا مریض ہے۔ لہذا  سسپکٹڈ  اور پرابیبل دونوں کو  رزلٹ آنے تک کوارنٹین کر دیا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر ضیا کہتے ہیں کہ اسی نکتے پر بڑی غلطی کا امکان اور خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں قرنطینہ مرکز  میں دونوں کو ایک ساتھ رکھ کر اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو ہو سکتا ہے منفی اور مثبت مریضوں کے مل جلنے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا: ’تافتان کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ ایران سے آئے زائرین کا قرنطینہ مرکز میں ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ نتیجتاً  آدھے سے زیادہ افراد کے ٹسٹ  مثبت آئے۔ اسی طرح جن علاقوں میں مثبت کیس نکلتے ہیں اور ان علاقوں کو کوارنٹین قرار دیا جاتا ہے۔ تو باہر سے تمام انتظامات تو ہو جاتے ہیں لیکن اندر  علاقے میں معمولات زندگی جاری رہتے  ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے میل جول تعلقات برقرار رکھے ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ضیا سمجھتے ہیں کہ اول تو ایک علاقہ صحیح کوارنٹین تب ہی کہلائے گا کہ علیحدگی میں رہنے کی مدت پوری ہونے تک علاقے کے اندر بھی لوگوں کے باہر نہ نکلنے پر  پابندی ہو ورنہ یہ کیسز بڑھتے ہی جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’اگر ایک علاقے کو کوارنٹین قرار دیا جا چکا ہے اور وہاں 20 ہزار آبادی ہے۔ تو 20 ہزار لوگوں کے ٹسٹ تو نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن اس کوارنٹین میں لوگوں سے احتیاط کروا کر وائرس پھیلنے سے  روکا جا سکتا ہے۔اسی طرح قرنطینہ مرکز میں چونکہ سسپکٹڈ اور پرابیبل کیسز ہوتے ہیں ، لہذا آئیڈئل یہ ہے کہ رزلٹ آنے تک سب کو علیحدہ رکھا جائے  اور نتائج کی صورت میں ہی مثبت کیسز کو آئیسولیشن وارڈ شفٹ کر لیا جائے۔‘

  آئیسولیشن وارڈ

آئیسولیشن وارڈ کے بارے میں ڈاکٹر ضیاالحق کہتے ہیں کہ اس میں صرف ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کے رزلٹ مثبت آئے ہوں یا پھر ان میں بیماری کی شدید علامات پائی جاتی ہوں۔

انہوں نے کہا: ’ایسے مریضوں کو دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ ان کے کھانے پینے کے برتن، تولیہ، بستر، اور دیگر استعمال کا سامان  استعمال علیحدہ کر دیے جاتے ہیں تاکہ اور لوگ متاثر نہ ہوں۔ ان کا باتھ روم اور کمرہ الگ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ دوسرے پازیٹیو مریضوں کے ساتھ  ملتے جلتے ہوں تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

 

ڈاکٹر ضیا الدین مزید کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے پازیٹیو مریضوں کے لیے بہترین  جگہ آئیسولیشن وارڈ ہوتا ہے کیونکہ گھر میں ایسے مریض کی تیمارداری مشکل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض گھر پر رہ کر اپنی بیماری کا تعین نہیں کر سکتا کہ آیا وہ بہتری کی طرف جارہا ہے یا بگڑ رہا ہے۔

’آئیسولیشن وارڈ میں ڈاکٹرز کی نگرانی میں ایسے مریضوں کا رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ مرض بڑھنے کی صورت میں ان کو فوری طور پر آئی سی یو میں شفٹ کیا جا سکے۔‘

اگر ڈاکٹر ضیاالحق کی مندرجہ بالا وضاحت کے تناظر میں خیبر پختونخوا میں قرنطینہ مراکز کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سسپکٹڈ اور پرابیبل دونوں قسم کے مریضوں کو ایک ساتھ رکھا جارہا ہے جو  ڈاکٹروں کے مطابق وائرس پھیلنے کا باعث بن رہا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ مرض بڑھتا جا رہا ہے۔

دوسری جانب لاک ڈاؤن اور کئی علاقوں کو کوارنٹین قرار دیے جانے کے بعد بھی لوگ گھروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو  باقاعدہ ٹریفک جام سڑکوں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں کہ اس صوبے میں ٹسٹ کی استعداد کم ہونے کی وجہ سے ٹسٹ کم ہو رہے ہیں۔ اور عوام کے عدم تعاون کی وجہ سے پولیس اور ڈاکٹر اب تھکتے جارہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان