حکومت کا شکریہ

جن ملکوں میں کرپشن زیادہ اور حکومت نااہل ہو وہاں بھی منافع زیادہ رکھا جاتا ہے تاکہ ان خرچوں کو بھی پورا کیا جاسکے جو سرکاری اہلکاروں کی جیب گرم کرنے میں لگیں۔

جب میں پی ٹی آئی میں تھا اس وقت بھی خان صاحب کی یہی عادت تھی انہیں بالآخر بات ماننی پڑتی تھی مگر بہت نقصان کے بعد  (فائل تصویر: اے  ایف پی)

میں آپ سب کو رمضان کی آمد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس وبائی صورت حال میں آپ اپنا اور اپنے پڑوسیوں کی صحت کا خیال رکھیں گے۔

یہ یاد رکھیں کہ قرآن نے کئی دفعہ ہمیں یاد دلایا ہے کہ خدا نے مذہب کو ہمارے لیے آسان بنایا ہے اور یہ بھی یاد دلایا ہے کہ انسان خود اپنے لیے مصیبتیں پیدا کرتا ہے۔ خدا بے نیاز ہے، لہذا اپنی عبادات کو اس معاشرے کے لیے نقصان دہ نہ بنائیں۔ مسجدیں انسانوں کے لیے بنی ہیں، انسان مسجدوں کے لیے نہیں۔ امید کرتا ہوں علمائے کرام اس معاملے میں قوم کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے۔

میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ حزب اختلاف کی حیثیت سے حکومت کو پالیسیوں اور قانون سازی پر مشورے دینا ہمارا فرض ہے اور اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا ان کی صوابدید۔ آپ سب اس بات کے شاہد ہیں کہ پچھلے دو سال میں ہم نے نجی طور پر خارجہ پالیسی کے کچھ مشورے بھیجے کیونکہ یہ حساس معاملہ ہے مگر معیشت اور سماجی مسائل پر مشورے سب کے سامنے انہیں دیئے۔

دو سال کے عرصے میں انہوں نے ہمارے صرف چند خارجہ معاملات کے مشوروں کو پسند کیا لیکن معاشی معاملات پر ہماری بات نہیں مانی جس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتا پڑا۔ اب پچھلے چند ہفتوں میں انہوں نے ہماری چند باتیں مانی ہیں جیسے قرضوں کی واپسی کی مد میں بین الاقوامی برادری سے کچھ مہلت کی درخواست۔ اس معاملے میں بھی صرف ایک سال کی مہلت کافی نہیں ہے اور ہمیں پانچ سال کی مدت مانگنی چاہیے۔

دوسری بات شرح سود میں کمی کی تھی جو بالآخر نو فیصد پر آگیا ہے مگر اسے بھی کچھ اور نیچے آنا چاہیے۔ نریندر مودی کے معاملے میں بھی اب حکومت کو ہماری بات سمجھ میں آئی ہے کہ یہ مسلمانوں اور پاکستان کا کٹر دشمن ہے۔

ان تینوں مشوروں کے ماننے پر میں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ اگر باقی مشوروں پر عمل کریں تو مزید فائدہ ہوگا۔ جب میں پی ٹی آئی میں تھا اس وقت بھی خان صاحب کی یہی عادت تھی انہیں بالآخر بات ماننی پڑتی تھی مگر بہت نقصان کے بعد۔

اب کچھ اور تجاویز حکومت کے سامنے رکھتے ہیں، امید ہے وہ ان پر جلد عمل کریں گے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ روزمرہ اور زندگی کی ضروری چیزوں پر جی ایس ٹی ٹیکس فوری طور پر17 فیصد سے کم کرکے 8 فیصد پر لایا جائے۔ تنخواہوں پر انکم ٹیکس چھ لاکھ روپے تک معاف کیا جائے اور چھ سے 12 لاکھ روپے تک صرف پانچ فیصد ٹیکس لیا جائے۔

تیل کی قیمت دنیا بھر میں انتہائی کم ہو چکی ہے، اس کا فائدہ فوری طور پر عوام کو پہنچایا جائے اور قیمتیں کم کی جائیں۔ اس سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا جو معیشت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہ مشورے میں انہیں پہلے بھی دے چکا ہوں مگر ایک دفعہ پھر دہرا رہا ہوں۔

کسی ملک میں جہاں کاروبار کرنا مشکل ہو وہاں سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع رکھتے ہیں تاکہ نقصان کا خدشہ کم ہو۔ جن ملکوں میں کرپشن زیادہ اور حکومت نااہل ہو وہاں بھی منافع زیادہ رکھا جاتا ہے تاکہ ان خرچوں کو بھی پورا کیا جا سکے جو سرکاری اہلکاروں کی جیب گرم کرنے میں لگے۔

یہ تمام بوجھ صارفین کو ہی اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ انہیں زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ کچھ سرمایہ دار اس بات کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں کہ قوانین یا معاہدے ایسے کیے جائیں کہ تگڑا منافع ہو۔ آٹا، چینی، بجلی اور سیمنٹ وہ صنعتیں ہیں جو اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اس میں سارا قصور سرمایہ داروں کا نہیں ہے اور اس کا الزام صرف انہیں دینا بھی مناسب نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دنیا بھر میں حکومت اور سرمایہ داروں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ آج تک پاکستان میں اس بات کو یقینی نہیں بنایا جا سکا کہ گیس، بجلی اور ٹیلی فون کے بل صحیح ہوں اور کمپنیوں کو غلط بل بھیجنے پر جرمانہ کیا جائے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ماہانہ کئی سو ارب روپے کے غلط بل لوگوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ جو لوگ گیس اور بجلی چوری کرتے ہیں، جس میں کچھ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں، انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔

یہ نیپرا، پی ٹی اے، پیمرا، اوگرا اور ایسے بہت سے ریاستی اداروں کا کام ہے کہ اپنے زیرِ انتظام صنعتوں پر نگاہ رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ عوام کا استحصال نہ کرسکیں۔ تجارتی تنظیمیں بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تمام ادارے اس کام میں مکمل ناکام رہے ہیں۔ سزا صرف سرمایہ داروں کو نہیں ملنی چاہیے بلکہ ان اداروں کو بھی ملنی چاہیے۔

ہمیں اس ملک میں نہ صرف اچھے سیاستدانوں کی ضرورت ہے بلکہ اچھے سرمایہ دار، استاد، سرکاری افسر، جنرل، جج اور صحافیوں کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت نظام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر شعبے میں بدترین لوگ اوپر آ رہے ہیں جبکہ اچھے لوگوں کے لیے مواقع کم سے کم ہو رہے ہیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔

ایماندار لوگوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ لگانا بہت مشکل ہوگیا ہے، اسی لیے وہ ایسے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں مشکلات کم ہوں۔ کوئی شریف اور ایماندار کاروباری رشوت دینا نہیں چاہتا مگر کیا کسی بھی سرکاری دفتر میں کام بغیر رشوت کے ہو سکتا ہے؟ اگر رشوت دیئے بغیر کام نہیں ہوتا تو کسی خوف خدا رکھنے والے کاروباری کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے؟

اس ریجیکٹڈ جمہوریہ کی جگہ اب ایک نئی جمہوریہ قائم کرنا ہوگی۔ حزب اختلاف کے لوگ ہماری اس بات سے اب اتفاق کرتے ہیں۔ حکومت کو بھی یہ مشورہ جلد مان لینا چاہیے لیکن ہر کام کی طرح لگتا ہے اس میں بھی انہیں دیر ہوگی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ