کرونا کے دور میں نماز تراویح کی ادائیگی

عوام نے اب مساجد کی بجائے گھروں کے اندر نماز تراویح کا اہتمام کر لیا ہے اور پشاور میں نماز تراویح کے اہتمام کی بابت عوام دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔

حافظ مقصودالرحمٰن گھر کے اندر نماز تراویح پڑھا رہے ہیں (ابراہیم خان)

کرونا (کورونا) وبا نے جہاں زندگی کے دیگر معمولات بدل ڈالے ہیں، وہیں اس نے سماجی دوری کے تیر بہ ہدف نسخے کے تحت مساجد کی رونقیں اس قدر ماند کردی ہیں کہ یہ رونقیں رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی بحال نہ ہوسکیں۔

عوام نے اب مساجد کی بجائے گھروں کے اندر نماز تراویح کا اہتمام کر لیا ہے۔ پشاور میں نماز تراویح کے اہتمام کی بابت عوام دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔

ایک وہ گروپ ہے جوخود کو زیادہ 'پکا مسلمان' گردانتا ہے اور ان کا خیال ہے کہ کرونا وائرس ان کی قوت ایمانی کے سامنے ہیچ ہے۔ اسی اعتقاد کی بنیاد پر انہوں نے مساجد میں ہی نماز تراویح ادا کی لیکن دوسری طرف پشاور کے قدرے باشعور حلقوں نے اپنے گھروں میں با جماعت نماز تراویح پڑھانے کا انتظام کر لیا ہے۔

گھروں میں نماز تراویح پڑھنے کا یہ سلسلہ نیا نہیں لیکن ماضی میں گھروں کے اندر نماز تراویح کا اہتمام ایک سٹیٹس سمبل کے طور پر لیا جاتا تھا، جس کے دوران عام طور پر اونچے طبقے کے لوگ کسی حافظ صاحب کو بلا کر تراویح میں قرآن سن لیتے تھے۔

نماز تراویح کی ایسی محافل کے اختتام پر سحری کا بھی بندوبست ہوتا تھا جس کی وجہ سے ان جگہوں پر جانے کی کشش رہتی تھی۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا کہ اگر امرا کے گھر میں کوئی بچہ قرآن حفظ کر لیتا اور مساجد میں روایتی حفاظ کی وجہ سے انہیں نماز تراویح میں قرآن سنانے کا موقع نہیں ملتا تھا تو ایسے میں والدین خود بچوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے نماز تراویح کا گھر پراہتمام کر لیتے تھے۔

یوں (ان کے خیال میں) ان کے بچے کا شوق بھی پورا ہو جاتا اور ثواب بھی زیادہ مل جاتا تھا۔ اس اعتبار سے نماز تراویح کا گھروں میں یہ انتظام کوئی نئی بات تو نہیں لیکن نیا پن یہ ہے کہ اب باجماعت نماز تراویح امرا کے گھروں سے نکل کر مڈل کلاس بلکہ غریب لوگوں کے گھروں میں بھی ادا کی جا رہی ہے۔

یہی اہتمام جمعے کی رات پشاور کی لگ بھگ ہر محلے میں دیکھا گیا جہاں مساجد سے زیادہ گھروں میں نماز تراویح ادا کی گئی۔ کہیں یہ اہتمام گھروں کی چھتوں پر دیکھا گیا اور کہیں صحن اور کہیں ڈرائنگ روم (بیٹھک) میں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نماز تراویح کا یہ اہتمام بعض مقامات پرتو رشتہ داروں کے اجتماع کی شکل میں ہو رہا ہے تو کہیں دوستوں نے مل کر اس کا اہتمام کیا ہے۔ جہاں جہاں رشتہ داروں نے نماز تراویح کا اہتمام کیا ہے وہاں باجماعت نماز میں خواتین بھی پوری طرح شرکت کررہی ہیں۔ گویا پورا گھر ہی ایک وقت میں نماز تراویح ادا کرتا دکھائی دیا۔

نماز تراویح کا مرد و زن کا مشترکہ اہتمام پشاور کے رہائشی عبد الرحمٰن کے گھر کی چھت پر دیکھا گیا، جہاں ان کے اپنے افراد خانہ کے علاوہ پڑوس میں رہنے والے ان کے بھائی اور ان کے اہل خانہ نے نماز تراویح کا اہتمام کر رکھا تھا۔

61 سالہ عبد الرحمٰن خان نے بتایا کہ اس سے پہلے کبھی ان کی زندگی میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ نماز تراویح باجماعت گھر پر پڑھی ہو لیکن اب جب حکومت اور جید علما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ رمضان میں بھی گھر میں رہ کر عبادات ادا کریں تو میں نے اپنے رشتہ داروں سے بات کی اور اب ہم گھر پر ہی تراویح کی نماز باجماعت پڑھ رہے ہیں۔

اس نئے انداز کا یہ فائدہ ہوا کہ اب گھر کی خواتین اور مرد ایک ساتھ اس عبادت سے فارغ ہو جا تے ہیں۔عبد الرحمٰن نے پوچھنے پر بتایا کہ ان کے گھر یا قریبی رشتہ داروں میں کوئی حافظ نہیں تھا اس لیے ان کے گھر میں چھوٹی صورتوں والی نماز تراویح ادا کی جا رہی ہے۔ 'ہم ایک گھنٹے میں نمازِ عشاء اور تراویح پڑھ کر فارغ ہو گئے تھے۔'

جب ان سے پوچھا گیا کہ مسجد کے مقابلے میں گھر کے اندر نماز تراویح پڑھنا کیسا لگا تو ان کا کہنا تھا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے وہاں عبادت کا اپنا لطف ہے لیکن گھر کی چھت کو ہم نے کرونا وائرس کے خطرے کے بعد صاف کرکے مسجد کا درجہ دے دیا ہے، یہاں نماز اور اب تراویح کی ادائیگی کا یہ فائدہ ہوا کہ بچوں میں نماز پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ میرا چارسالہ پوتا ایک نماز کی ادائیگی کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے لگا ہے۔

پشاور کے صحافی محمود الرحمٰن کے گھر میں بھی نماز تراویح کا اہتمام کیا گیا جہاں انہوں نے گھر کی بیٹھک میں نماز تراویح باجماعت پڑھنے کے لیے اپنے دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔

ہم بھی عبد الرحمٰن کے گھر کا احوال لے کر محمود الرحمٰن کے گھر پہنچے تو حافظ مقصودالرحمٰن وہاں نماز تراویح میں قرآن سنا رہے تھے۔ انہوں نے دو پاروں کی تلاوت کی، یوں ان کا ختم قرآن پندرہویں رمضان تک مکمل ہو جائے گا۔

یہاں محمود الرحمٰن کے بھائی اور بھتیجوں کے علاوہ دوست بھی آئے ہوئے تھے اور ان سب کو یقین تھا کہ وہ کرونا کے کیرئیر نہیں ہیں، اس لیے سماجی دوری کا خیال نہیں کیا جا رہا تھا۔

حافظ مقصود الرحمٰن کے پیچھے میں نے نماز تراویح تو ادا نہیں کی لیکن وہاں بیٹھ کر ان کی خوش الحان تلاوت سننے کا شرف ضرور حاصل کیا۔ نماز تراویح کی ادائیگی کے بعد پشاوری قہوے کی سہولت بھی میسر آگئی۔

گپ شپ شروع ہوئی تو میں نے حافظ مقصود سے پوچھا کہ کیا آپ پہلی دفعہ کسی کے گھر پر نماز تراویح میں قرآن سنا رہے ہیں تو انہوں نے کچھ سوچ کر کہا، جی ہاں پہلی دفعہ۔ میرا دوسرا استفسار تھا کہ کسی گھر میں نماز تراویح پڑھانا کیسا لگا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ 'ٹوٹے دل سے تراویح پڑھائی ہے، یہاں مسجد والی بات نہیں تھی، مسجد میں اللہ کی بیش بہا برکت ہوتی ہے اس لیے وہاں زیادہ مزہ آتا ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ ایک مسجد والوں نے انہیں کہا تھا کہ ہماری مسجد میں قرآن سنائیں لیکن اس سے پہلے محمود صاحب سے میں وعدہ کرچکا تھا اس لیے یہاں آگیا۔

محمود الرحمٰن سے اس موقعے پر ان کے جذبات پوچھے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ میری نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی ہوتی ہے لیکن موجودہ حالات کے تحت کچھ دوستوں اور گھر کے بڑوں اور بچوں کے کہنے پر میں نے حافظ صاحب سے بات کی اور گھر میں ہی نماز تراویح کا اہتمام کر لیا۔'

'میری کوشش ہو گی کہ کم ازکم نماز تراویح کے لیے دفتر سے مختصرچھٹی(Short Leave) آ کر نماز تراویح پڑھ لیا کروں۔ امید ہے کہ میرا ختم پورا ہو جائے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو بھی مجھے اطمینان ہے کہ میں نے یہ اہتمام کر لیا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا یہاں ایک تو نماز تراویح باجماعت کی ادائیگی ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی قہوے کی پیالی پراحباب سے گپ شپ بھی ہو جاتی ہے۔ نماز تراویح کے بعد کی یہ گپ شپ سردست مختصر ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دورانیہ بڑھ کر سحری تک بھی جاسکتا ہے جس کا اپنا علیحدہ مزہ ہے۔

نماز تراویح رمضان کا ایک تحفہ ہے جبکہ رمضان مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ بابرکت مہینہ ہے جس کے دوران ایک فرض کا ثواب بڑھ کر 70 گنا ہو جاتا ہے جبکہ نفل کا ثواب بڑھ کر فرض کے برابر ہوجاتا ہے۔

اس اضافی ثواب کے حصول کا بڑا ذریعہ نماز تراویح ہے جس کی ادائیگی کا ماہ رمضان میں مساجد کے اندرخصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ نماز تراویح پر مسلکی بحث بھی رہی لیکن اس کے باوجود ہر دور میں اس کا اہتمام ہوتا رہا جس کے دوران حافظ قرآن عام طورپر نماز تراویح میں پورے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔

یوں پورا قرآن کم ازکم ایک بار نماز تراویح میں سنا جاتا ہے۔ بعض لوگ ثواب کا یہ موقع رمضان کے آخری عشرے کے دوران محافل شبینہ میں حاصل کرتے ہیں،جبکہ بعض مساجد میں روزانہ نماز تراویح کی 20 رکعات میں پانچ پانچ پارے پڑھ کر گویا اپنی دانست میں فارغ ہو جاتے ہیں۔

نماز تراویح میں اس قسم کے ختم قرآن کے پشاور میں دلدادہ بہت سے ہیں جو روزانہ ڈھائی سے تین گھنٹوں کے قیام کی مشقت کے دوران قرآن سنتے ہیں اور یہ گمان کر لیتے ہیں کہ ایک ذمہ داری تمام ہوئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ