’اے آر وائی نیوز‘ میں سندھ حکومت کے خلاف ٹیکسٹ میسج چل رہا ہے؟

سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینیئر لیڈر سعید غنی کی جانب سے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ پر ان کی پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا الزام ہے جس کی چینل نے تردید کی ہے۔

سکرین گریب

سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینیئر لیڈر سعید غنی کی جانب سے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز ‘ پر ان کی پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی کوششوں کے الزام کے بعد چینل نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے۔

’اے آر وائی نیوز‘ کی جانب سے صوبہ سندھ میں شبعہ صحت کے مسائل کے حوالے سے جمعرات کی شام ایک ٹرانسمیشن نشر کی گئی جس کے میزبان اینکرز شفاعت علی اور مدیحہ نقوی تھے جبکہ پینل میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم اور ’اے آر وائی‘ کے نمائندہ ارباب چانڈیو شامل تھے۔

ٹرانسمیشن کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کی رائے جاننے کے لیے انہیں لائیو آڈیو کال ملائی گئی۔ تاہم پروگرام میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے ایک میسیج پڑھ کر سنایا جو ان کو موصول ہوا تھا اور جس میں ان کے مطابق چینل کی جانب سے رپورٹروں کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ سندھ حکومت کی بری کارکردگی کے بارے میں روزانہ ایک رپورٹ فائل کریں۔

 

سعید غنی نے کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ اتنے بڑے چینل پر ان کی پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور ایسی تاکید صرف سندھ کے لیے ہی دی جا رہی ہیں۔

پروگرام کے بعد انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا کہ ’اے آر وائی‘ وفاقی حکومت کے کہنے پر سندھ کی حکومت کو نشانہ بنا رہا ہے۔ انہوں نے ’اے آر وائی نیازی‘ اور ’سندھ دشمن اے آر وائی‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھی کچھ ٹویٹس کیں جس کے بعد یہ ہیش ٹیگ وائرل ہوگئے اور جمعرات کی شب اور جمعے کو بھی ٹاپ ٹرینڈ بنے رہے۔

اس مبینہ میسج پر بات کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سعید غنی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا: ’اس میں واضح طور پر یہ احکامات دیے گئے تھے کہ آے آر وائی کے سندھ میں تمام رپورٹرز سے سندھ حکومت کی نااہلی کے حوالے سے کم از کم ایک پیکج بنوایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ سہولیات کی عدم دستیابی کا رونا رونے والی اور وفاقی حکومت پر مدد نہ کرنے کا الزام لگانے والی سندھ حکومت بتائے کہ ان کے لاکھوں ملازمین عوام کی کس طرح مدد کر رہے ہیں یا صرف گھروں میں بیٹھ کر آرام کررہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مجھے باوثوق ذرائع سے ’اے آر وائی‘ کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک وٹس ایپ میسج موصول ہوا جس میں صاف صاف یہ احکامات دیے گئے ہیں کہ سندھ حکومت کے خلاف پیکجز بنائے جائیں اور خبریں نکالی جائیں۔ اگر اے آر وائی نیوز دوسرے صوبوں کے لیے بھی یہ مہم چلا رہا ہوتا تو انصاف ہوتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کی جانب سے سندھ حکومت تو سنگل آؤٹ کرکے ان پر نشانہ لگایا جارہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سندھ کے نظام میں کمیاں اور خامیاں ہیں تاہم یہ بھی کہا کہ ’ایسے وقت پر انہیں سامنے لانے کا کام یقیناً کسی کے کہنے پر ہی کیا جارہا ہے۔‘

سعید غنی کے بقول: ’ہمیں کوئی مسئلہ نہیں کہ یہ پی ٹی آئی کی سپورٹ کریں یا کسی اور پارٹی کی، ہم ان سے سپورٹ کی بھیک نہیں مانگ رہے۔ دنیا جانتی ہے کہ سندھ حکومت اس وقت لوگوں کے لیے کیا کام کر رہی ہے۔ مگر ایک پارٹی کو ٹارگٹ کرنا، ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، انہیں بدنام کرنا ایک مجرمانہ کام ہے اور ہم اس کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔‘

ہم نے ہیش ٹیگ ’اے آر وائی نیازی‘ کے حوالے سے جب سعید غنی سے پوچھا کہ کیا یہ ایک سیاستدان کے لیے مناسب ہے کہ وہ اس طرح ایک معروف ٹی وی چینل کے خلاف ہیش ٹیگ چلائیں تو ان کا کہنا تھا: ’میں تو کسی ٹی وی چینل کا مالک نہیں ہوں تو میں اپنی مرضی سے کسی پارٹی کو دنیا بھر میں بدنام نہیں کر سکتا۔ مگر اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق سب کو ہے، اس لیے میں نے گھر سے بیٹھ کر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ ٹرینڈ شروع کیا۔ اس چینل کو اے آر وائی نیازی اس لیے کہا کیوں کہ موجودہ صورتِ حال میں سندھ حکومت کی بروقت کارکردگی اور موثر اقدامات کچھ لوگوں سے ہضم نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم خود بھی پیپلز پارٹی کے خلاف باتیں کرتے رہے اور اب پی ٹی آئی حکومت نے سندھ حکومت کو بدنام کرنے کا ٹاسک اے آر وائی نیوز کو دیا ہے۔‘

 اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا: ’میری اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ کل ٹوئٹر پر ہم نے جو ٹرینڈ شروع کیا اس کے خلاف جن جن لوگوں نے ٹویٹس کیں اور دیگر پلیٹ فارموں  پر ہمارے خلاف مہم چلائی، ان سب کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔‘

’اے آر وائی نیوز‘ کا رد عمل

تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ’ اے آر وائی نیوز ‘کے ڈائریکٹر نیوز عماد یوسف کا کہنا ہے کہ یہ بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ جس وٹس ایپ میسج کی وہ بات کر رہے ہیں وہ محض ایک عام اسائیننگ شیٹ تھی جو ہر نیوز چینل میں رپورٹرز کو بھیجی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ واٹس ایپ میسج ’اے آر وائی نیوز‘ کے سندھ کے رپورٹرز کے واٹس ایپ گروپ میں سینٹرل ڈیسک کی جانب سے بھیجا گیا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح ہر صوبے کے رپورٹرز کے گروپس میں بھیجا جاتا ہے۔

عماد یوسف نے کہا: ’نہ یہ میسج اور نہ ہی ہمارے اینکر کے سوالات کسی پروپیگنڈا کا حصہ ہیں۔ سعید غنی کا یہ الزام کہ ’اے آر وائی نیوز‘ کی جانب سے ان کے اور سندھ حکومت کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، بالکل بے بنیاد ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس میسج میں صرف یہ لکھا تھا کہ تمام ڈسٹرکٹ اور بیٹ رپورٹرز سے کم سے کم ایک پیکج بنوائیں جن میں سندھ حکومت کے ہسپتالوں میں سہولیات کے دعوے اور اصل حقیقت نظر آئے اور رپورٹرز  یہ بتائیں کہ ان کے اضلاع میں ضلعی ہسپتال سے لے کر بیسک ہیلتھ یونٹس کتنے ہیں اور ان کا سالانہ بجٹ کتنا ہے۔

تام ہم نے جب ان سے یہ پوچھا کہ کیا اب تک یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ’اے آر وائی نیوز‘ کے اندرونی معاملات کی خبر اور یہ اسائیننگ شیٹ سعید غنی تک کیسے پہنچی تو اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تک اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ شیٹ کیسے پہنچی اور کس نے دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان