پشاور کا ایک کرونا مریض جو قرنطینہ کے خوف سے گھر میں چل بسا

کرونا وائرس کی وبا سے متعلق معاملات اور انتظامات میں حکومتی ادارے چستی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں تاہم کچھ ایسے بھی مریض ہیں جو قرنطنیہ کے ڈر سے گھروں میں ہی دم توڑ رہے ہیں۔

(اے ایف پی فائل)

پشاور اندرون شہر کے 75 سالہ رہائشی ارشد حسین کی کھانسی بڑھنے لگی تو انہیں فکر لاحق ہوئی۔ شاید وہ عام حالات میں ہسپتال جانے سے گریز کرتے، لیکن ہر طرف کرونا (کورونا) وائرس کی بازگشت نے انہیں ٹیسٹ کروانے پر مجبور کر دیا۔

ان کے ٹیسٹ پشاور کے پولیس سروسز ہسپتال میں ہوئے جن کے نتائج مثبت آنے پر سب اہل خانہ شدید پریشانی کا شکار ہوگئے۔ تاہم ارشد کے بیٹے جواد حسین کے مطابق ان کے پیروں تلے سے زمین اس وقت نکل گئی جب تھانے سے انہیں کال موصول ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ ایک ٹیم معائنے کے لیے آرہی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’کرونا کے شکار افراد کا کیا حشر ہوتا ہے ہم نے سن رکھا تھا۔ ایک دفعہ انہیں قرنطنیہ کر دیا جائے  پھر ان کے ساتھ جو بھی ہوتا ہے اہل خانہ کو اس کی خبر تک نہیں دی جاتی۔ نہ ہی ان سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مریض کی موت واقع ہونے پر لاش  بھی لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی۔ بس یہی سوچ کر ہم بہت زیادہ ڈر گئے اور لگا کہ وہ والد کو قرنطینہ مرکز لے جائیں گے۔‘

جواد نے بات جاری رکھتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہر بار گھر کی گھنٹی بجتی تو سب کے چہروں کا رنگ اڑ جاتا۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔ تاہم ہر بار گھنٹی بجانے والا کوئی اور نکل آتا۔

جواد کے مطابق دن گزرتے گئے لیکن نہ تو ان کے والد کو کوئی لینے آیا اور نہ ہی کوئی فون کال دوبارہ آئی۔ جبکہ خود انہوں نے بھی یہ سوچ کر ہسپتال سے رجوع نہیں کیا کہ کم از کم والد آنکھوں کے سامنے تو رہیں گے۔

جواد نے والد کی بیماری کے حوالے سے بتایا کہ شروع میں انہیں کھانسی کی تکلیف تھی جو بعد میں ٹھیک ہوتی گئی، جبکہ دوسری علامات میں انہیں کبھی تیز اور کبھی کم بخار کی شکایت تھی۔ البتہ سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جواد نے کہا: ’ان کی کھانسی ختم ہو گئی تھی۔ باقی علامات اتنی شدید نہیں تھیں۔ ہم نے سوچا کہ وہ صحت یاب ہورہے ہیں۔ لیکن  پھر والد کی حالت اچانک اتنی زیادہ بگڑ گئی کہ چار مئی کی صبح ان کی موت واقع ہو گئی۔‘

یہ کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بنائے گئے ایس او پیز کا خوف ہی تھا جس نے جواد حسین اور ان کے اہل خانہ کی صحت کو لاحق خطرات کے باوجود خاموش کیے رکھا۔ دوسری جانب، حکام کی جانب سے خاموشی اور غفلت نے گھر کے پانچ لوگوں سمیت اور لوگوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

ارشد حسین کی وفات پر نہ صرف لوگ ان کی فاتحہ پڑھنے ان کے گھر گئے بلکہ ان کے جنازے میں بھی شرکت کی۔ یہاں تک کہ ان کو آخری غسل بھی ان کے بیٹے جواد نے ہی دیا۔

جب جواد حسین سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے محلے داروں اور رشتہ داروں کو ان کے والد کی بیماری کا علم تھا، تو انہوں نے کہا کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو خبر تھی کہ ان کے والد  کرونا وائرس سے وفات پا گئے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ جنازے میں ایسے بھی آئے جنہیں کچھ پتہ نہیں تھا۔

جواد کے مطابق: ’جنازے میں تقریباً 25 لوگ موجود تھے۔ گھر پر پہلے دن صرف قریبی رشتہ دار خواتین اور میری بہنیں آئی تھیں۔ لیکن اسی دن ہم نے سوگ ختم کرکے سب کو آنے سے منع کیا۔‘

ارشد حسین کے بعد  ان کی بیوی اور بہو کے رزلٹ بھی مثبت آئے تاہم اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے جواد اور ان کے بھائی کے رزلٹ نیگیٹیو  آئے ہیں۔حالانکہ جواد کے مطابق ان کا بھائی والد کی بیماری کے دن ان کے زیادہ قریب رہے اور جب انہیں آخری لمحات میں سانس لینے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے اپنے منہ سے انہیں آکسیجن دینے کی بھی کوشش کی۔

جواد نے مزید بتایا کہ والد کے وفات کے بعد تمام اہل خانہ ایک نجی لیبارٹری ٹیسٹ کروانے گئے۔

ذمہ داری کس کی تھی؟

ارشد حسین کیس کے حوالے سے جب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر  ڈاکٹر سراج سے بات ہوئی تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ  طریقہ کار یہ ہے کہ ہسپتال انہیں مریض کی تفصیلات بھیجتا ہے۔ جس کے بعد ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی مدد حاصل کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ضلعی انتظامیہ پھر پولیس کی مدد حاصل کرتی ہے جس کے بعد مریض کے مرض کی نوعیت دیکھتے ہوئے گھر، محلے یا پورے علاقے کا لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے پولیس سروسز ہسپتال کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر محمد اورنگ زیب سے بھی بات کی۔ جس پر انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ دراصل لاپرواہی ان کی جانب سے نہیں بلکہ مریض کے گھر والوں کی جانب سے ہوئی ہے جنہوں نے مرض بڑھنے کے بعد حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

انہوں نے کہا: ’دراصل ہم ان مریضوں کو گھر بھیج دیتے ہیں جن کے رزلٹ تو مثبت آجاتے ہیں لیکن ان میں علامات نہیں ہوتیں۔ جبکہ وہ مریض جن میں علامات ہوتی ہیں ان کو ہم قرنطینہ سینٹر بھیج دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایک مریض کی طبیعت گھر میں رہتے ہوئے بگڑ جائے تو فوراً ہیلپ لائن یا ہسپتال سے رابطہ کر لینا چاہیے جو کہ انہوں نے نہیں کیا۔‘

کرونا وائرس کی وبا سے متعلق معاملات اور انتظامات میں حکومتی ادارے چستی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں۔ لیکن ارشد حسین کے کیس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں پر ان ذمہ داریوں میں لاپرواہی اور غلطیاں بھی اس وائرس کے پھیلنے کا سبب بن رہی ہیں۔

ایس او پیز پر عملدرآمد کی وجہ سے بعض مریضوں اور ان کے خاندانوں کو مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑا۔ جن میں ایک  مشکل مرحلہ لاش کو ان کے لواحقین کے حوالے نہ کرنا تھا۔ اس کی وجہ سے بھی عوام میں بہت خوف وہراس پھیل گیا ہے اور وہ اپنا اور اپنے پیاروں کا مرض چھپا رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان