'وزیراعلیٰ بلوچستان کو مخالفت سے بچانے کے لیے استعفیٰ دیا'

دسویں این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان سے غیر سرکاری رکن کی حیثیت سے تقرری پر تنقید کے بعد عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے اپنے بیان میں سابق سینیٹر نے کہا کہ وہ صوبے کی ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان (بائیں)  کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی  نے سندھ سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار  (دائیں) کی تقرری کی منظوری دی تھی (تصاویر: جام کمال ٹوئٹر اکاؤنٹ)

سابق سینیٹر جاوید جبار نے دسویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں بلوچستان سے غیر سرکاری رکن کی حیثیت سے تقرری پر تنقید کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ صوبے کی ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

 جاوید جبار نے این ایف سی رکن کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان، گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ خان یاسین زئی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو بھجوا دیا ہے۔

1973 کے آئین کے تحت نیشنل فنانس کمیشن کے قیام کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کرنا ہے، جس میں وفاق کے نمائندوں کے علاوہ ہر صوبے سے دو اراکین ہوتے ہیں۔

ہر صوبے کا وزیر خزانہ کمیشن کا سرکاری رکن ہوتا ہے جبکہ ایک غیر سرکاری رکن کی تقرری صوبائی حکومتوں کی سفارش پرصدر مملکت کی جانب سے کی جاتی ہے۔

رواں ماہ ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی  نے سندھ سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار کی تقرری کی منظوری دی تھی، جس پربلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان کی نمائندگی کے لیے صوبے سے ہی کسی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا۔ 

استعفیٰ موصول ہونے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا: 'جاوید جبار کا رضاکارانہ استعفیٰ دینا ایک افسوسناک واقعہ ہے اور یہ دیکھنا افسوسناک ہے کہ کچھ نفس پرست لوگوں نے ان کے بارے میں غلط معلومات پھیلائیں۔ وہ این ایف سی اور بلوچستان کے حوالے سے سالوں کا علم، تجربہ اور گہرائی رکھتے ہیں۔'

جام کمال نے مزید کہا: 'امید ہے کہ تنقید کرنے اور منفی کردار ادا کرنے والوں کو اس کا احساس ہوگا۔'

بعدازاں میڈیا کو جاری کیے گئے اپنے پیغام میں سابق سینیٹر جاوید جبار نے کہا: 'پاکستان کا کوئی بھی شہری جو نامزد کرنے والے حکام کے مطابق معیار پر پورا اترتا ہو، چاہے وہ کسی بھی صوبے کا رہائشی ہو، قانون اور آئین کے مطابق اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ چار میں سے کسی بھی صوبے کی نمائندگی کر سکے یا این ایف سی میں خدمات سر انجام دے سکے یا کسی بھی وفاقی ادارے میں کام کر سکے۔'

جاوید جبار کے مطابق: 'بلوچستان کے عظیم عوام سے میرا 45 سالہ پرانا تعلق ہے اور چھ سال بطور رکن سینیٹ اور تین بار بطور وفاقی کابینہ کے رکن اور ترقیاتی سیکٹر میں میری رضاکارانہ خدمات کے بعد میں نے اس غیر متوقع اعزاز کو قبول کیا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف مثبت کردار ادا کرنا تھا۔'

انہوں نے کہا کہ 'میرا ابتدائی موقف یہ تھا کہ گو کہ میں اس صوبے کا رہائشی نہیں ہوں لیکن میں سیاست، معیشت اور اس کے مسائل سے آگاہی رکھتے ہوئے اپنے تجربے سے مثبت کردار ادا کر سکتا ہوں۔ بلوچستان کے کئی رہائشیوں نے بھی میری نامزدگی کی حمایت کی تھی، لیکن گذشتہ دو ہفتوں کے دوران صوبے سے میری نامزدگی کی سیاسی مخالفت سامنے آئی ہے جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر پٹیشنز کا فیصلہ بھی قانون و آئین کے مطابق جلد سنا دیا جائے گا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاوید جبار کے مطابق: 'این ایف سی ایوارڈز کے سلسلے میں اتفاق رائے سب سے اہم چیز ہے۔ ترجیح یہی ہے کہ بلوچستان میں بھی این ایف سی کے حوالے سے ایک وسیع اتفاق رائے موجود ہو۔ اگر ایسا سیاسی اتفاق رائے موجود نہیں ہے تو چاہے جتنی بھی محنت اور لگن سے کام کیا جائے اور بلوچستان کے عوام کا جتنا فائدہ بھی ہوگا اس کا نتیجہ مسترد کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ اس سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھا۔'

ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'بلوچستان میں وسیع سیاسی اتفاق رائے اور اس ڈر سے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو مزید مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس کی وجہ سے ان کے اچھے کاموں سے توجہ ہٹ جائے گی، میں اپنے استعفے کا اعلان کرتا ہوں، جو آج 30 مئی 2020 سے نافذ العمل ہو گا۔'

آخر میں انہوں نے کہا: 'مجھے یقین ہے کہ نئی نامزدگی بلوچستان کے عوام کے لیے فائدہ مند اور اہم کردار ادا کرے گی۔ میں بلوچستان کی ترقی کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا۔'

سندھ کے دارالحکومت کراچی سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار ماضی میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، انہوں نے بحیثیت سینیٹر اور وفاقی وزیر بھی خدمات انجام دی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان