برطرفیاں: کیا عمران خان اور پی سی بی ایک پیج پر نہیں؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کی دوہری پالیسی نے عوامی حلقوں میں سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا بورڈ اپنے سرپرست اور وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کے خلاف عمل پیرا ہے؟

بورڈ  نے ایک طرف بچت کے نام پر ملازمین کو برطرف کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف بھاری معاوضوں پر ملازمین کو بھرتی بھی کیا جا رہا ہے (تصویر: پی سی بی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ کرونا (کورونا) وبا کے دوران کسی کو بھی ملازمت سے برطرف نہیں کیا جائے گا اور اگر کسی ادارے نے  ایسا کیا تو ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

مگر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے کم آمدنی والے ملازمین کو برطرف کر کے ایک طرف وزیراعظم کے دعوے کی نفی کردی اور دوسری طرف نئی تقرریاں کر کے کسی مالی دشواری کے عنصر کو بھی خارج از بحث کر دیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی دوہری پالیسی نے عوامی حلقوں میں سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا بورڈ اپنے سرپرست اور وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کے خلاف عمل پیرا ہے؟

بورڈ  نے ایک طرف بچت کے نام پر ملازمین کو برطرف کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف بھاری معاوضوں پر ملازمین کو بھرتی بھی کیا جا رہا ہے۔

برطرف ہونے والوں میں سابق ٹیسٹ کرکٹرز ہارون رشید، مدثر نذر اور آغا زاہد ہی نہیں بلکہ نچلے درجے کے وہ درجنوں ملازمین بھی شامل ہیں جن کی مجموعی ماہانہ تنخواہ بورڈ کے کسی اعلیٰ افسر سے بھی کم ہے ۔

پی سی بی میں جدت اور اعلیٰ معیار کے دعووں کے ساتھ آنے والے چیئرمین احسان مانی اور ایم ڈی وسیم خان نے معیار کے پیمانے شاید یہ مقرر کیے ہیں کہ ملازمین کی تعداد کم اور معاوضے بھاری کردیے جائیں۔

موجودہ عالمی وبا کرونا کے دوران دنیا بھر میں کرکٹ کی مصروفیات رک گئی ہیں اور تمام بورڈز کفایت شعاری پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اخراجات میں کمی کی جائے اور کوئی نئی تقرری نہ کی جائے۔  ان کے پیش نظر سب سے زیادہ مقدم عملی کرکٹ کا آغاز ہے اور اس کے ساتھ بورڈز کے ملازمین کی تنخواہیں وقت پر ادا کی جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کرکٹ بورڈ ان سب کے برعکس نرالی پالیسی پر گامزن ہے۔ آمدنی کے فقدان اور عملی کرکٹ میں تعطل کے باوجود نئی تقرریاں کر رہا ہے اور ان کے لیے بھاری معاوضے بھی مختص کیے گئے ہیں۔

گذشتہ چار ماہ سے مفقود کرکٹ کے باوجود ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس کے لیے ہر ہانڈی میں نمک کی طرح موجود ندیم خان کو مقرر کیا گیا ہے، جنھیں ابھی یہ نہیں معلوم کہ کرکٹ کب شروع ہوگی اور ان کا کیا کردار ہوگا۔

گھر بیٹھ کر 12 لاکھ روپے لینے والے ندیم خان کے تجربے اور صلاحیتوں پر بھی بڑے سوالات ہیں۔ ایک ٹیسٹ کھیلنے والے ندیم خان ہر دور میں کسی نہ کسی پوزیشن پر رہتے ہیں۔ ان کی تقرری پر بورڈ نے ان کے پروفائل میں معین خان اکیڈمی اور رمضان کارپوریٹ کرکٹ کا ذکر کیا ہے حالانکہ معین خان اکیڈمی نے آج تک کوئی قابل ذکر کھلاڑی پاکستان کو نہیں دیا ہے۔

جبکہ رمضان کرکٹ اپنی نوعیت کے لحاظ سے متنازع ہے اور بورڈ اس پر پابندی لگا چکا ہے۔

مناسب ہوتا کہ اس پوزیشن پر کسی تجربہ کار کھلاڑی کو لایا جاتا جس سے کرکٹ اور بورڈ دونوں کو فائدہ ہوتا۔

دوسرا کے موجد ثقلین مشتاق کو بھی بھاری معاوضے پر ڈائریکٹر انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ پلئیرز رکھا گیا ہے۔ ثقلین مشتاق بلاشبہ ایک زبردست سپنر تھے اور پاکستان نے بہت سارے میچز ان کی کارکردگی کی بدولت جیتے ہیں لیکن بحیثیت کوچ ان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں ہے۔ وہ انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی کوچنگ کرچکے ہیں لیکن اب تک کوئی اپنے جیسا بولر نہیں بنا سکے ہیں۔

نیوزی لینڈ کے گرانٹ بریڈبرن جو اب تک قومی ٹیم کے ساتھ فیلڈنگ کوچ تھے ان کو مزید بھاری معاوضے پر ہائی پرفارمنس کوچ رکھا گیا ہے۔ اوسط کارکردگی کے حامل گرانٹ اکیڈمی میں کیا کریں گے؟ اس کی زیادہ توقع نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے پورے کوچنگ کیر یئر میں ایک اوسط درجے کی ٹیم سکاٹ لینڈ ہے جس کا انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی خاص مقام نہیں۔

ایک اور تقرری ڈائریکٹر آپریشن عاشر ملک کی ہوئی ہے جنہیں کرکٹ کا تو کوئی تجربہ نہیں لیکن شنید ہے کہ حکومتی پارٹی کی ایک اعلیٰ عہدیدار سے تعلقات کی بنا پر نوازا گیا ہے۔ لمز یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ عاشر ملک ہائی پرفارمنس سینٹر کے انتظامی معاملات سنبھالیں گے۔

اس سے قبل بھی کئی تقرریاں بھاری معاوضوں پر کی جاچکی ہیں جن پر میڈیا وقتاً فوقتاْ تنقید کرتا رہا ہے۔

ان تقرریوں کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کسی قارون کے خزانے پر تخت نشین ہے۔

لیکن اگر شاہی خزانہ دسترس میں ہے تو کم آمدنی والے درجنوں ملازمین کو کس بچت کی خاطر برطرف کیا گیا ہے۔ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں اور مسلسل لاک ڈاؤن کے سبب ان ملازمین کے اہل خانہ پہلے ہی سخت اذیت کا شکار ہیں اس پر بورڈ نے مزید تیر وتبر برساتے ہوئے ان کے گھروں کے چولہے بجھا دیے ہیں۔

چند ہزار ماہانہ پر کام کرنے والے آفس بوائے، میسنجر، چپڑاسی اور خاکروبوں کی ملازمتیں ختم کرکے بورڈ کے اعلیٰ حکام سمجھ رہے ہیں کہ وہ بہت بڑی بچت کرلیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔

اگر بورڈ کسی بچت کے خیال میں ہے تو مناسب یہ تھا کہ اعلی افسران کی تنخواہوں میں کچھ کٹوتی کی جاتی جن کو ان کی اہلیت اور قابلیت سے کہیں زیادہ نوازا جارہا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ ہر معاملے میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کی پیروی کرنا چاہتا ہے اسے ان سے سبق سیکھنا چاہیے تھا جہاں تیس فیصد تک تنخواہوں میں کمی کردی گئی ہے۔

پی سی بی نے ابھی تک ان برطرفیوں کی وضاحت نہیں کی ہے لیکن بورڈ کی خاموشی نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا بورڈ عوامی ردعمل کو کچھ گردانتا ہے اور اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہے یا اس کے لیے کوئی احتسابی ادارہ نہیں ہے۔

کیا وزیر اعظم عمران خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے ان برطرف ملازمین کی آہیں سن سکتے ہیں جن کی سسکیوں بھری آوازیں شاہراہ دستور کی راہوں میں اپنے غمگسار کو ڈھونڈ رہی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ