پی پی پی کی قیادت پر سنگین الزامات لگانے والی سنتھیا رچی کون ہیں؟

بھٹو خاندان اور پاکستان پپیلز پارٹی کی اعلیٰ سیاسی شخصیات کے حوالے سے سنتھیا ڈان رچی کی انتہائی متنازع ٹویٹس نے ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔

سنتھیا  رچی خود کو فری لانس میڈیا ڈائریکٹر، پروڈیوسر، وی لاگر اور سیاح قرار دیتی ہیں (انسٹا گرام)

پہلے بختاور بھٹو، پھر بے نظیر بھٹو، اس کے بعد مرتضیٰ وہاب اور سید مراد علی شاہ اور اب یوسف رضا گیلانی، رحمٰن ملک اور مخدوم شہاب الدین۔ بھٹو خاندان اور پاکستان پپیلز پارٹی کی اعلیٰ سیاسی شخصیات کے حوالے سے سنتھیا ڈان رچی کی انتہائی متنازع ٹویٹس نے ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔

سنگین الزامات پر مبنی ان ٹوئٹس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن اور حامی سنتھیا رچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ مبینہ طور پر دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

سنتھیا نے کچھ روز قبل ٹوئٹر پر پیپلزپارٹی کے رہنما اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کی مبینہ طور پر کچھ ذاتی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان پر متعدد خواتین سے تعلقات کا الزام لگایا تھا۔

دو روز قبل انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو پیغام میں مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر ریپ جبکہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین پر دست درازی کا الزام عائد کیا۔ تاہم تینوں وزرا نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے سنتھیا کے 'عزائم' پر سوال اٹھایا ہے۔

پیپلز پارٹی ان الزامات کے ردعمل میں سنتھیا ڈی رچی کے خلاف اب تک ملک بھر کے 200 سے زائد تھانوں میں ایف آئی آر کی درخواست جمع کروا چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما سحر کامران نے ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کو بھیجی گئی شکایت میں درخواست کی ہے کہ سنتھیا رچی کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں اور انہیں جلد از جلد ملک بدر کیا جائے۔

سنتھیا نے ہفتے کو ایف آی اے کے جاری کردہ ایک نوٹس پر تحریری جواب میں کہا کہ وہ 10 سال سے پاکستان میں مقیم ہیں اور خیبر پختونخوا حکومت کے لیے محکمہ آثار قدیمہ اور مختلف این جی اوز کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی سے لڑنا نہیں چاہتیں اور پارٹی سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو مستقبل میں ملک کے ایک طاقت ور لیڈر کے طور پر دیکھتی ہیں۔

سنتھیا نے تحریری جواب میں یہ بھی کہا کہ وہ ایک دستاویزی فلم کے لیے بلاول بھٹو زرداری کا انٹرویو کرنا چاہتی تھیں، وہ اس وقت ایک تحقیقاتی ڈاکیومنٹری بنا رہی ہیں۔

سنتھیا کون ہیں؟

38 سالہ سنتھیا امریکی شہری ہیں جو 2009 میں پہلی بار پاکستان آئیں۔ اس دوران انہوں نے کچھ عرصہ پاکستان سے باہر بھی گزارا لیکن پچھلے سات سالوں سے وہ شہر اقتدار اسلام آباد میں مستقل طور پر مقیم ہیں۔

انہوں نے 2003 میں امریکہ کی لوئی زیانا سٹیٹ یونیورسٹی سے قانون اور شعبہ ابلاغ عامہ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی بعد میں اسی یونیورسٹی سے انہوں نے 2005 میں تعلیم اور نفسیات کے شعبے میں ماسٹرز مکمل کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد انہوں نے مزید دو اور شعبوں میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، جس میں سے ایک میں انہوں نے طبی نفسیات میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کی پیپرڈائن یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ دوسری ڈگری سٹریٹیجک پبلیک ریلیشنز کے شعبے میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے مکمل کی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیکساس جوڈیشری نے سنتھیا کو چائلڈ ایڈووکیٹ مقرر کیا اور وہاں انہوں نے تقریباً ایک سال تک کام کیا۔ 

2008 میں سنتھیا نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کی سٹی کونسل میں کمیونٹی رابطہ افسر کے فرائض بھی انجام دیے۔ سنتھیا کا اس حوالے سے کہنا تھا: 'اس وقت ہیوسٹن میں پاکستانی برادری سیاسی اور سماجی سطح پر کافی فعال تھی، اس دوران پاکستانی برادری کے ساتھ مل کر میں نے ہیوسٹن شہر کے لیے کافی کام کیا اور وہیں سے پاکستانیوں کے لیے میرے دل میں کافی عزت پیدا ہوئی۔'

پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران سنتھیا ہیوسٹن کی اس وقت کی میئر اینیس پارکر کی خیرسگالی سفیر کے طور پر مختصر وقت کے لیے پاکستان آئیں۔ اس دورے کے کچھ عرصے بعد سنتھیا کی ملاقات موجودہ وزیراعظم عمران خان سے ہیوسٹن میں ہوئی جہاں وہ ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ سنتھیا کے مطابق اس ملاقات کے بعد وہ عمران خان سے رابطے میں رہیں۔

اس ایونٹ کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنتھیا کو محکمہ صحت میں کمیونیکیشن لیکچرر کے طور کام کرنے کی دعوت دی۔ سنتھیا کے مطابق انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور پاکستان آ کر بلا معاوضہ پی پی پی حکومت کے لیے اپنی خدمات انجام دیں۔ انہیں محکمہ صحت کی جانب سے رہنے کی جگہ، سفری سہولیات، ایک فون اور ایک ٹیبلٹ ڈیوائس فراہم کی گئی تھی۔

محکمہ صحت کی جانب سے فراہم کردہ رہائش کا ذکر انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دی گئی وضاحت میں بھی کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس وقت کے وفاقی وزیر صحت مخدوم شہاب الدین سے ان کی اچھی دوستی تھی، لیکن وہ اکثر بن بلائے ان کی رہائش گاہ پر آجاتے اور بغیر اطلاع دیے ان کے کمرے میں داخل ہو جاتے تھے۔ سنتھیا کے مطابق ایک بار انہوں کے ان کی پیٹھ پر مساج کرنے کی کوشش کی تھی جس کی انہوں نے مذمت کی اور پھر ان سے دوری اختیار کی۔

تاہم مخدوم شہاب الدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'سنتھیا جھوٹ بول رہی ہیں، میں نے ہمیشہ ان کی عزت کی ہے۔ وہ اکثر میرے دفتر آیا کرتی تھیں اور کبھی کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔'

پاکستان آنے کے بعد سنتھیا محکمہ صحت کے لیے بطور کمیونیکیش لیکچرر تو کام کر ہی رہیں تھیں لیکن انہیں اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ اس لیے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی، جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی تھے، کی بیٹی فرحانہ سواتی کی این جی او 'ہیومینیٹی ہوپ' میں ڈیڑھ سال تک کام کیا۔

اس دوران اعظم سواتی پر ٹیکس چوری کرنے کے حوالے سے تحقیقات جاری تھیں اس لیے سنتھیا کے مطابق اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اعظم سواتی کی بیٹی کی این جی او چھوڑ دیں لیکن مالی مشکلات کے باعث سنتھیا نے ایسا نہیں کیا۔

پی پی پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ رحمٰن ملک نے سنتھیا کو یہ مشورہ دیا تھا، اس کے علاوہ بھی ان کی رحمٰن ملک سے اچھے تعلقات تھے۔

2011 میں سنتھیا نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ میں سٹریٹیجسٹ اور ریسرچر کے طور پر کام کیا۔ اس کے علاوہ پارٹی منشور کو ترتیب دینے میں بھی انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سنتھیا کے مطابق اس دوران ان کی دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی وابستگی ہوئی، جن میں ایم کیو ایم، ن لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی سر فہرست ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اس دوران کچھ جماعتوں نے ان کی جاسوسی کی اور متعدد بار ان پر حملہ بھی ہوا۔

مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے بعد سنتھیا کی رہائش اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں منتقل کر دی گئی اور ان سے سفری سہولیات واپس لے لی گئیں۔ سنتھیا کے مطابق مخالف جماعت پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ میں کام کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی حکومت کا رویہ ان سے تبدیل ہو گیا تھا۔

سنتھیا کئی سال تک پاکستان میں مقیم رہیں اور پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ میں اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اس دوران انہوں نے ’تھرو اے ڈیفرنٹ لینس‘ نامی میڈیا پروڈکشن کمپنی کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی امریکہ میں رجسٹرڈ ہے اور پاکستان میں ’واک اباؤٹ فلمز‘ نامی کمپنی کے اشتراک سے دستاویزی ویڈیوز بناتی ہے۔

2015 میں سنتھیا رچی نے ’ایمرجنگ فیسز‘ کے نام نے پاکستانی ثقافت اور تہذیب پر مبنی اپنی پہلی دستاویزی فلم بنائی۔ اس کے علاوہ سنتھیا انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبون، دی نیوز انٹرنیشنل، ساؤتھ ایشیا میگزین اور گلوبل ولیج سپیس کے لیے لکھتی ہیں۔

سنتھیا خود کو فری لانس میڈیا ڈائریکٹر، پروڈیوسر، وی لاگر اور سیاح قرار دیتی ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک چینل بھی موجود ہے جس پر پاکستان کے مختلف سیاحتی مقامات پر ان کی بنائی گئی ویڈیوز اور وی لاگز موجود ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعد ایک لاکھ 88 ہزار سے زائد ہے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔

سنتھیا کے مطابق وہ کچھ عرصے سے مقامی ایجنسیوں اور پاکستان فوج کی مدد سے پشتون تحفظ موومنٹ کی مبینہ ملک مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے ریسرچ کر رہی ہیں۔

تاہم یہ بات واضح نہیں کہ ٹریول وی لاگنگ اور فری لانس ڈاکیومنٹری بنانے والی سنتھیا پی ٹی ایم کے حوالے سے ریسرچ کیوں کر رہی تھیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ریسرچ  ڈاکیومنٹری بنا رہی ہیں۔

سنتھیا نے بتایا کہ اس ڈاکیومنٹری کی ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پی پی پی کے مبینہ طور پر پشتون تحفظ موومنٹ سے گہرے تعلقات ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اس ریسرچ کی وجہ سے وہ اور ان کے اہل خانہ کو کئی عرصے سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، لہٰذا انہوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف ٹویٹس کا سلسلہ شروع کیا۔ تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت سنتھیا کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست