جیلوں سے رہا ہونے والے طالبان قیدی دوبارہ لڑنے کے 'خواہشمند '

حال ہی میں افغان جیلوں سے رہائی پانے والے کچھ جنگجوؤں نے لڑائی کے میدان میں واپس آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن طالبان ترجمان سہیل شاہین کہتے ہیں کہ انہیں مزید نفری کی ضرورت نہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت افغان حکومت نے پانچ ہزار قیدیوں کو جبکہ طالبان نے 1000سکیورٹی اہلکاروں کو رہا کرنا ہے۔(اے ایف پی)

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے افغان حکام انتہائی خطرہ مول لیتے ہوئے ہزاروں جنگجو قیدی رہا کر رہے ہیں۔

تاہم حال ہی میں رہا ہونے والے کچھ جنگجوؤں کی جانب سے 'جنگ' دوبارہ شروع کرنے کے ارادے ظاہر کرنے کے بعد سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گذشتہ مہینے بگرام جیل سے رہائی پانے والے محمد داؤد کہتے ہیں کہ اگر امریکی افغانستان سے نہ نکلے تو وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے کیونکہ وہ کئی افغانوں کے قاتل ہیں۔

روایتی شلوار قمیض میں ملبوس داؤد نے حکام سے ملنے والے کچھ پیسے ہاتھ میں لیے ٹیکسی میں اپنے گاؤں روانہ ہونے سے پہلے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ وہ اپنے ملک میں غیر ملکی فورسز کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خیال رہے کہ امریکی فوج نے 28 سالہ داؤد کو نو سال قبل فریاب صوبے سے گرفتار کیا تھا۔

طالبان کی جانب سے عید پر تین روزہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد افغان حکام نے 'جذبہ خیر سگالی' کے طور پر طے شدہ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے عمل کو تیز کر دیا تھا۔

ایک سکیورٹی اہلکار کے مطابق طالبان نے جن قیدیوں کی رہائی کی فہرست دی تھی ان میں ممکنہ  خود کش بمباروں، خود کش جیکٹیں   بنانے والوں، اغوا کرنے والوں حتیٰ کہ غیر ملک جنگجوؤں کے نام شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رہائی پانے والے قیدیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوبارہ اسلحہ نہ اٹھانے کے حوالے سے حلف نامہ جمع کرائیں، تاہم صاف دکھائی دیتا ہے کہ ایسے حلف ناموں کی کوئی حیثیت نہیں۔

طالبان  کے جنگجو دھڑے کے ترجمان نے اس معاملے پر کوئی ردعمل دینے سے گریز کیا۔ تاہم ان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ رہا ہونے والے قیدی دوبارہ لڑائی میں شامل ہوں گے کیونکہ ان کے مطابق گروپ کے پاس ' پہلے سے کافی متحرک اور ریزرو' فورس موجود ہے۔'ہمیں جنگی میدان میں کوئی نفری نہیں چاہیے کیونکہ ہم افغان حکومت کے ساتھ  مذاکرات شروع کرنے جا رہے ہیں۔'

سہیل شاہین نے جمعرات کی صبح ایک ٹویٹ میں بتایا کہ  طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے افغان انتظامیہ کےمزید آٹھ فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے۔

رہائی پانے والے کچھ قیدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی امریکہ پر غصہ ہے تاہم امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری کو طے پانے والے امن معاہدے کے تحت جنگجوؤں نے غیر ملکی فورسز کے اگلے سال تک انخلا کے دوران ان پر حملے روک دیے ہیں۔

طالبان جنگجوؤں نے ان دنوں اپنی کارروائیوں کا رخ افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورس کی جانب موڑ رکھا ہے کیونکہ ان کے درمیان کوئی امن معاہدہ نہیں ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت افغان حکومت نے پانچ ہزار قیدیوں کو جبکہ طالبان نے 1000 سکیورٹی اہلکاروں کو رہا کرنا ہے۔

افغان سکیورٹی حکام کا گلہ ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر حتمی بات چیت سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی۔ ایک سینیئر افغان سکیورٹی افسر کے مطابق جنگجوؤں سے کہیں زیادہ 'تشویش کے بات ان کے ذہن ہیں' کیونکہ ایک قیدی جنگجو گروپ میں شامل ہو چکا ہے جبکہ ایک اور قیدی نے رہائی پانے کے بعد ایک قتل کر دیا ہے۔

طالبان امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کو اپنی جیت قرار دیتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں کابل کے ساتھ بات چیت میں ناکامی کے باوجود یہ طالبان کی جیت تصور ہو گی۔

تاہم کچھ مبصرین اب بھی پر امید ہیں کہ افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے کامیاب امن مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے جڑے ایک مبصر انڈریو واٹکنس کہتے ہیں کہ دیرپا امن کے لیے کسی دوسرے آپشن کے برعکس ان امن مذاکرات سے کہیں زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔

اب تک افغانستا ن میں امن بات چیت کا کوئی شیڈول جاری نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا