نیا بجٹ: تاجر، مخالفین ناخوش، حکومت مطمئن

بعض معاشی ماہرین، تاجر اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے بجٹ ناقص قرار دیا ہے جبکہ حکومت نے کسی نئے ٹیکس کے نہ لگانے کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

بجٹ سیشن میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی (پی آئی ڈی)

معاشی ماہرین، تاجروں اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف حکومت کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیش کردہ تجاویز کو کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے تناظر میں ناکافی قرار دیا ہے۔ تاہم حکومت نے اس کا دفاع کیا ہے۔

معاشی ماہر خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ اس وقت کرونا کی وبا کے باعث ملک میں غیرمعمولی حالات ہیں۔ ’حکومت کی جانب سے محض چند ٹیکسوں میں تبدیلی کافی نہیں ہے بلکہ ٹیکسوں کے نظام کو کچھ اس طرح سے ریشنالائز کیا جاتا کہ اس سے معیشت کو دور رس فائدہ پہنچتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کے لیے بجٹ تجاویز میں کوئی مراعات نہیں رکھیں۔ ’ایس ایم ایز ہی وہ شعبہ ہے جو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اور کرونا وائرس کی موجودگی میں پاکستان میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعوں کی ضرورت ہے۔‘

خرم شہزاد نے مزید کہا کہ اسی طرح زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کے لیے بجٹ میں قابل تعریف تجاویز پیش نہیں کی گئی ہیں۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینیئر رکن علی حسام کا کہنا تھا کہ کرونا کی موجودگی میں دنیا بھر میں اشیا کی مانگ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ’دنیا کے کسی بھی حصے میں لگژری اشیا کی کوئی ڈیمانڈ نہیں رہی۔ بلکہ لوگوں کی بڑی ضرورت بنیادی استعمال کی چیزیں ہیں۔ جن میں خوراک کی اشیا سرفہرست ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت کو حلال خوراک کی صنعت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینا چاہیے تھیں۔ ’حلال فوڈ ایک ایسا شعبہ ہے جس کے ذریعہ پاکستان زرمبادلہ کما سکتا ہے بلکہ اس سے روزگار کے مواقعہ بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔‘

اسی طرح علی حسام نے کہا کہ کووڈ 19 سے متاثر ٹیکسٹائل کی صنعت کے فروغ سے بھی ملک میں معاشی اور کاروباری سرگرمی کو زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا اشارہ ہسپتالوں میں استعمال ہونے والی بیڈ شیٹس، نرسوں اور ڈاکٹرز کے یونیفارم وغیرہ ککی جانب تھا۔

تاجروں کا ردعمل

صدر مرکزی تنظیم تاجرن کاشف چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ ریلیف اور ٹیکس فری کے نام پر تاجر برادری کو عملی طور پر بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔

بجٹ کو غیرحقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنعت و تجارت کی ترقی، زراعت کے فروغ کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔

آل پاکستان آرگنائزیشن آف سمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹریز کراچی کے صدر محمود حامد نے وفاقی بجٹ پر  اپنا ردعمل دیتے ہوئے اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا ہے۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں متاثرہ لاکھوں چھوٹے تاجروں کے لیے کسی ریلیف کا اعلان نہ کرنے کو بھی افسوسناک قرار دیا اور کورونا سے تباہ حال کاٹیج انڈسٹری کو بجٹ میں مکمل نظرانداز کرنے کو حکومت کی تاجر  دشمنی قرار دیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کاروبار کرنے کے لیے این آئی سی کی شرط مکمل طور پر ختم کی جائے۔ انہوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک پرائیویٹ ادارے کے الیکٹرک کے لیے بجٹ میں 25 ارب روپے کی سبسیڈی ناقابل فہم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے70 فیصد ٹیکس دینے والے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی فنڈ مختص نہ کرنے کو بھی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ گرین لائن منصوبہ ڈیڑھ سال سے تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے شہر کی اہم ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ بند پڑی ہے۔ محمود حامد نے مطالبہ کیا کہ حکومت کراچی کو ترقی دینے  کے لیے بجٹ میں 200 ارب روپے مختص کرے۔

سیاسی ردعمل

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے بجٹ سے متعلق بیان میں کہا کہ ’یہ غریب کش بجٹ ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ کاروباری بدحالی نے تاریخی ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ ’مسلم لیگ (ن) نے 5.8 فیصد جی ڈی پی شرح والی معیشت دی اور موجودہ حکومت نے پہلے سال میں 1.9 پر پہنچادیا جبکہ رواں سال 10 فیصد مالی خسارہ ملکی معیشت اور بجٹ کے اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑ دے گا۔‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا کہ کنسٹرکشن سیکٹر کو تو پیکج دیا گیا مگر مزدور کے لیے کچھ نہیں، غریب اور مزدور دشمن بجٹ کو پاکستان کے عوام مسترد کرتے ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی نے بجٹ کی تیاری کے عمل کو غیرشفاف قرار دیتے ہوئے اسے عوام اور ملک دشمن قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کرونا کی آمد سے قبل ہی حکومت ریکارڈ قرضے لے چکی ہے اور انہیں امید تھی کہ صحت پر زیادہ رقم خرچ کی جائے گی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ایک بیان میں اسے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن والا بجٹ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اور حکومت گذشتہ برس کے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

حکومتی دفاع

وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے بجٹ کو سراہتے ہوئے اسے ریلیف پر مبنی اور حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کے باعث موجودہ عالمی معاشی صورت حال میں وزیراعظم عمران خان نے قوم کے لیے مراعات پر مبنی حقیقت پسندانہ بجٹ دیا ہے۔ ’نئے ٹیکس نہ لگا کر عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت